Tafseer-e-Madani - Al-Maaida : 114
قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ اللّٰهُمَّ رَبَّنَاۤ اَنْزِلْ عَلَیْنَا مَآئِدَةً مِّنَ السَّمَآءِ تَكُوْنُ لَنَا عِیْدًا لِّاَوَّلِنَا وَ اٰخِرِنَا وَ اٰیَةً مِّنْكَ١ۚ وَ ارْزُقْنَا وَ اَنْتَ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ
قَالَ : کہا عِيْسَى : عیسیٰ ابْنُ مَرْيَمَ : ابن مریم اللّٰهُمَّ : اے اللہ رَبَّنَآ : ہمارے رب اَنْزِلْ : اتار عَلَيْنَا : ہم پر مَآئِدَةً : خوان مِّنَ : سے السَّمَآءِ : آسمان تَكُوْنُ : ہو لَنَا : ہمارے لیے عِيْدًا : عید لِّاَوَّلِنَا : ہمارے پہلوں کے لیے وَاٰخِرِنَا : اور ہمارے پچھلے وَاٰيَةً : اور نشان مِّنْكَ : تجھ سے وَارْزُقْنَا : اور ہمیں روزی دے وَاَنْتَ : اور تو خَيْرُ : بہتر الرّٰزِقِيْنَ : روزی دینے والا
اس پر عیسیٰ بن مریم نے دعا کی کہ اے اللہ، ہمارے رب، اتار دے ہم پر آسمان سے ایک ایسا خوان جو کہ عید قرار پائے، ہمارے اگلوں کے لئے بھی اور پچھلوں کے لئے بھی، اور ایک (عظیم الشان) نشانی تیری طرف سے، اور ہمیں روزی عطا فرما اور تو ہی ہے (اے ہمارے رب ! ) سب سے بہتر روزی رساں،
303 پیغمبر کا کام اللہ کے حضور دعا کرنا : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس پر حضرت عیسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حضور دعا کی۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ پیغمبر مختار کل نہیں ہوتا، جس طرح کہ آج کے اہل بدعت کا شرکیہ عقیدہ ہے۔ کیونکہ جو مختار کل ہوتا ہے وہ دعا نہیں کیا کرتا بلکہ وہ حکم صادر کرتا ہے۔ پیغمبر کا کام تو دراصل اپنے رب کے حضور دست دعا وسوال بلند کرنا ہوتا ہے اور بس۔ آگے اس کو قبول کرنا یا نہ کرنا اللہ پاک کی مشیت کے تابع اور اس کی مرضی پر موقوف ہوتا ہے جس کی دعا وہ چاہے قبول کرے اور جس کی چاہے نہ قبول فرمائے۔ اپنے پیغمبروں کی دعا وہ عام طور پر اپنے فضل و کرم سے قبول ہی فرماتا ہے۔ لیکن اگر چاہے تو نہ قبول کرے۔ جیسا کہ نوح کی دعا ان کے اپنے بیٹے کے لئے قبول نہیں فرمائی۔ اور اسی طرح ابراہیم کی دعا ان کے اپنے باپ کے لئے۔ اسی طرح آنحضرت ﷺ کی دعا اپنے چچا ابو طالب کے لئے وغیرہ وغیرہ۔ بہرکیف پیغمبر اختیار کلی کا مالک نہیں ہوتا کہ جو چاہے کرے بلکہ پیغمبر کا اصل کام اپنے خالق ومالک کی طرف رجوع کرنا اور اس کے حضور اپنی عرض والتجا پیش کرنا ہوتا ہے اور بس۔ آگے ان کی دعا کی قبولیت و عدم قبولیت کا معاملہ حضرت حق ۔ جَلَّ مَجْدْہٗ ۔ کی مرضی و مشیت پر موقوف ہوتا ہے۔ وہ خالق کل اور مالک کل ہے اور جیسا چاہے کرے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس مختار کل وہی وحدہٗ لاشریک ہے ۔ جَلَّ وَعَلَا ۔ باقی سب اسی کے محتاج اور اسی کے در کے سوالی ہیں ۔ سبحانہ وتعالیٰ - 304 عید کا مفہوم اور اہل بدعت کے ایک مغالطے کا جواب : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اس پر حضرت عیسیٰ نے اللہ تعالیٰ کے حضور عرض کیا کہ اے اللہ تو ہم پر آسمان سے ایک ایسا خوان اتار دے جو ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید قرار پائے اور تیری طرف سے ایک عظیم الشان نشانی۔ یعنی وہ ہمارے اگلوں و پچھلوں سب کے لئے خوشی کا سامان ہو اور تیری یاد دلشاد کی تازگی کا سبب و باعث۔ اہل بدعت کے بڑوں نے اپنی افتاد طبع اور بدعت پرستی کی بنا پر اس سے عید میلاد وغیرہ اپنی بعض مروجہ بدعات کا جواز کشید کرنے کی کوشش کی ہے کہ چونکہ حضور پرنور کی ولادت مائدہ سماوی سے بڑی نعمت ہے اس لئے عید میلاد منانا سنت پیغمبر سے ثابت ہے۔ لیکن سوال یہ ہے ان لوگوں کی یہ تحقیق انیق اس سے پہلے کے چودہ صدیوں کے سلف صالحین میں سے کسی کو بھی آخر کیوں نہ سوجھی ؟۔ ائمہ اربعہ میں سے کسی ایک کو بھی آخر یہ بات کیوں نہ سمجھ آسکی ؟ صحابہ کرام میں سے کسی پر بھی یہ عقدہ آخر کیوں نہ کھلا ؟ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ خود سرکار دوعالم ۔ ﷺ ۔ نے اپنی نبوت مطہرہ کی تئیس (23) سالہ زندگی میں اس آیت کریمہ اور اس میں پائے جانے والے لفظ عید کا یہ مفہوم اپنی امت کو کیوں نہ ارشاد فرمایا۔ فقہ و حدیث کی سب کتابوں میں " کتاب العیدین " کے لفظ سے عید الفطر اور عید الاضحی کی صرف دو ہی عیدوں کا ذکر کیوں آتا رہا ؟ اور جب سے عید میلاد کا یہ مروجہ سلسلہ شروع کیا گیا سلف سے لیکر خلف تک تمام ثقہ علمائے کرام اس کو بدعت کیوں قرار دیتے رہے ؟ مثال کے طور پر اس بارے چند ایک حوالہ جات ملاحظہ ہوں : فتاوی شیخ الاسلام ابن تیمیہ الحنبلی : ج 1 ص 312، ارشاد الاخیار : ص 20 للشیخ الامام نصیر الدین الشافعی، المدخل لابن امیر الحاج المالکی : ج 1 ص 85 ا، الشرعۃ الالہیۃ للشیخ عبد الرحمن المغربی، القول المعتمد للشیخ احمد بن محمد المصری، حسن المقصد للشیخ جلال الدین السیوطی، مکتوبات شیخ احمد سرہندی مجدد الف ثانی : ج 5 ص 22 وغیرہ وغیرہ۔ مزید تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو : المنہاج الواضح ۔ راہ سنت ۔ للشیخ سرفراز خان صفدر۔ حفظہ اللہ و دامت برکاتہم ۔ پھر یہ بات بھی غور طلب ہے کہ کیا پیغمبر کی یاد کوئی ایسی چیز ہے کہ سال میں صرف ایک مرتبہ منا لی جائے اور بس۔ اور وہ بھی آپ کی جسمانی ولادت و پیدائش کے موقع پر جبکہ پیغمبر کا اصل امتیاز ان کی روحانی ولادت، یعنی ان کی بعثت و نبوت ہوتی ہے۔ اسی لئے قرآن حکیم میں جہاں کہیں بھی ذکر آیا ہے وہ آپ ﷺ کی بعثت اور نبوت و رسالت ہی کا آیا ہے نہ کہ جسمانی ولادت کا ﷺ بلکہ پیغمبر کی ذات اقدس تو وہ ذات ہے جن کا اسوئہ حسنہ اور حیات طیبہ زندگی کے ہر موڑ اور ہر موقع و مقام پر اور ہر حرکت و سکون میں سامنے رکھنے کی ضروت ہے تاکہ اس سے سبق لے کر راہ عمل استوار کی جاسکے۔ نہ یہ کہ دنیاوی بادشاہوں وغیرہ کی طرح سال میں ایک آدھ مرتبہ جشن منا لیا جائے اور بس۔ پس اہل بدعت کی یہ تاویلات دراصل تحریفات کے زمرے میں آتی ہیں ۔ والعیاذ باللہ ۔ اور ان کے ایک بڑے تحریف پسند نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ عیسائیوں کا بڑا دن اسی کی یادگار ہے۔ اس خدا کے بندے کو کوئی خیال نہ آیا کہ تم سے مطالبہ سنت محمدیہ ﷺ کی پیروی کا ہے یا کہ عیسائیوں کے رسم و رواج کی پیروی کا ؟ پتہ نہیں ایسے لوگوں کی مت کیوں اس قدر مار دی گئی اور یہ لوگ کیوں ایسے اوندھے اور اندھے ہوگئے کہ نصوص کتاب و سنت میں بھی اپنی خواہشات ومرضی کے مطابق اور اپنی من گھڑت اور خود ساختہ بدعات کی تائید وتقویت کے لئے اس طرح تحریفات کرتے ہیں ۔ وَالْعِیَاذ باللّٰہِ الْعَظِیْمِ واِلَیْہِ الْمُشْتَکیٰ جَلَّ وَعَلَا - 305 روزی رساں سب کا اللہ وحدہ لاشریک ہی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا اور انداز و اسلوب حصر کے ساتھ ارشاد فرمایا گیا کہ سب کا روزی رساں تو ہی تو ہے۔ جس کو جو ملتا ہے وہ تیری ہی طرف سے ملتا ہے۔ تیری عطا بلا حدود اور بغیر کسی عوض و بدلہ کے ہے۔ اور تو اپنے بندوں کو وہاں سے دیتا اور ایسا عطا فرماتا ہے کہ ان کے وہم و گمان بھی وہاں نہیں پہنچ سکتے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ پس بڑے ہی غلط کار اور بہکے بھٹکے ہیں وہ لوگ جنہوں نے اپنے طور پر طرح طرح کے اَن داتا گھڑ رکھے ہیں۔ اور انہوں نے ان سے اپنی توقعات وابستہ کر رکھی ہیں۔ یہاں تک کہ وہ انہی کے آگے جھکتے اور سجدہ ریز ہوتے ہیں اور انہی سے مانگتے اور انہی کے آگے ہاتھ پھیلاتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف یہاں پر اس ارشاد باری تعالیٰ سے اور اسی طرح دوسرے مختلف مقامات پر یہ حقیقت پوری طرح واضح فرما دی گئی کہ رازق سب انسانوں کا اللہ ہی ہے کہ وہی رزق و روزی کا اور اس کے اسباب و وسائل کا خالق ومالک ہے۔ اور سب کچھ اسی کے قبضہ قدرت و اختیار میں ہے۔ اور وہی سب کا داتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top