Tafseer-e-Madani - Adh-Dhaariyat : 25
فَاَقْبَلَتِ امْرَاَتُهٗ فِیْ صَرَّةٍ فَصَكَّتْ وَجْهَهَا وَ قَالَتْ عَجُوْزٌ عَقِیْمٌ
فَاَقْبَلَتِ : پھر آگے آئی امْرَاَتُهٗ : اس کی بیوی فِيْ صَرَّةٍ : حیرت سے بولتی ہوئی فَصَكَّتْ : اس نے ہاتھ مارا وَجْهَهَا : اپنا چہرہ وَقَالَتْ : اور بولی عَجُوْزٌ : بڑھیا عَقِيْمٌ : بانجھ
اس پر آپ کی اہلیہ بولتی پکارتی نکل آئیں چناچہ انہوں نے اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا اور کہا میں تو ایک بڑھیا ہوں بانجھ
[ 27] حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی کے اظہار حیرت و مسرت کا ذکر وبیان : سو اس ارشاد سے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی کا اس خوشخبری پر اظہار حیرت و مسرت کو بیان فرمایا گیا ہے۔ یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی نے کہا کیا میں بچہ جنوں گی جب کہ میں بوڑھی بانجھ ہوں اور یہ میرے شوہر بھی بوڑھے ہیں۔ یہ تو واقعی بڑی ہی عجیب بات ہے۔ یعنی حضرت سارہ سلام اللہ علیہا جو کہ قریب ہی ایک کونے میں کھڑی تھیں، سو انہوں نے خوشی اور تعجب کے ملے جلے جذبات کے اظہار کے طور پر کہا کہ کیا میں بچہ جنوں گی ؟ جب کہ میں بوڑھی بانجھ ہوں ؟ اور میرے شوہر بھی بوڑھے ہوچکے ہیں ؟ یہ تو ایک بڑی ہی عجیب بات ہے { قالت یویلتیء الد وانا عجوز وھذا بعلی شیخا ط ان ھذا لشئی عجیب } [ ھود : 73 پ 12] یعنی حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی نے کہا کہ میں بچہ جنوں گی جب کہ میں بوڑھی بانجھ ہوں اور میرے شوہر بھی اس قدر بوڑھے ہیں۔ یہ تو یقینی ایک بڑی اور عجیب بات ہے۔ یعنی ظاہری حالات تو اولاد کے بالکل برعکس ہیں کہ شوہر انتہائی بڑھاپے کو پہنچ چکے ہیں، اور بیوی بوڑھی ہونے کے علاوہ بانجھ بھی ہیں، تو پھر ان کے یہاں کسی اولاد کا کیا سوال ؟ سو اس بناء پر انہوں نے تعجب کا اظہار کیا، سبحانہ وتعالیٰ وجل وعلا۔ [ 28] حضرت سارہ سلام اللہ علیہا کے تعجب سے ایک استدلال باطل کی تردید کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ حیران ہو کر آگے بڑھیں اور اپنے ماتھے پر ہاتھ مارا۔ یعنی اظہار تعجب و خوشی کے طور پر۔ جیسا کہ عام طور پر ہوتا ہے اور خاص کر خواتین میں ایسے عموماً پایا جاتا ہے، وافض نے اس سے اپنے ماتم و سینہ کو بی کی رسم بد پر دلیل کشید کرنے کی سعی مذموم کی۔ لیکن ان سے کوئی پوچھے کہ آخر یہاں پر ماتم اور افسوس کا کون سا مقام تھا ؟ یہاں تو ایک عظیم الشان خوشی اور خوشخبری کا موقع تھا۔ لیکن جب انسان خوف خدا سے عاری اور نور ایمان و یقین سے محروم اور خالی ہوجاتا ہے، تو اس کی مت اسی طرح مار کر رکھ دی جاتی ہے، جس کے نتیجے میں اس کو سیدھی بات بھی الٹی لگتی ہے، جس کو قرآن حکیم میں جابجا۔ " یؤفکون "۔ اور " تؤفکون "۔ کے الفاظ سے تعبیر فرمایا گیا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ الذی لا الہٗ الا ھو۔ بہرکیف حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی بیوی سارہ جو اس موقع پر قریب ہی کہیں کھڑی سن رہی تھیں یہ خوشخبری سنتے ہی اظہار تعجب و مسرت کے طور پر اپنے ماتھے پر ہاتھ مار کر بولیں کہ یہ کیسے ہوگا ؟ سو حضرت سارہ سلام اللہ علیہا کے اس فقرے کے اندر حیرت، مسرت اور اس بشارت کی تصدیق مزید کی خواہش سب کچھ جھلکتا ہے، جیسا کہ اصحاب ذوق سلیم سے مخفی نہیں، واضح رہے کہ " فی صرۃ " اس عربی محاورے سے ماخوذ ہے جس میں کہا جاتا ہے۔ " صر الفرس ذنبہ " یعنی گھوڑے نے اپنے کنویتاں کھڑی کیں۔ سو اسی بنا پر " فی صرۃ " کا یہ محاورۃ تعجب اور حیرانی کی حالت کے اظہار کے لئے آتا ہے۔ [ 29] حضرت سارہ سلام اللہ علیہا کے تعجب کے سبب کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ حضرت سارہ سلام اللہ علیہا نے کہا کہ میں تو ایک بڑھیا اور بانجھ ہوں۔ یعنی ایک نہیں دو عذر اور موانع موجود ہیں کہ ایک تو یہ کہ میں بوڑھی ہوں، بچے جننے کی عمر کبھی کی گزر چکی ہے، چناچہ روایا ات کے مطابق اس وقت ان کی عمر بنانوے [ 99] برس تھی اور حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کی ایک سو بیس [ 120] برس۔ اور دوسرے یہ کہ میں بانجھ ہوں۔ بچے جننے کی صلاحیت سے پہلے ہی سے عاری اور محروم ہوں، تو پھر ایسے میں اس عمر کو پہنچ کر میرے یہاں کوئی بچہ کس طرح پیدا ہوسکتا ہے ؟ اور یہ ایک طبعی بات تھی جس کو انہوں نے اس موقع پر پیش کیا، کیونکہ عام طبعی قوانین کے مطابق ایسے حالات میں کسی کے یہاں بچے پیدا ہونے کا کوئی امکان نہیں رہتا۔ اس لئے حضرت سارہ سلام اللہ علیہا نے فرشتوں کی طرف سے ملنے والی خوشخبری کے جواب میں اپنی اس کیفیت اور معذوری کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ میں بچہ کیسے جنوں گی جب کہ میں بوڑھی بانجھ ہوں ؟ اور اس طرح انہوں نے شاید اس بات کو بھی پیش نظر رکھا ہوگا کیا اس ولادت کیلئے میری حالت اور کیفیت کو تبدیل کیا جائے گا، یا میرے یہاں بچہ اسی حالت میں جنم لے گا۔ سو اس موقع پر ان کا یہ اظہار تعجب ایک فطری امر تھا۔
Top