Tafseer-e-Madani - At-Tur : 20
مُتَّكِئِیْنَ عَلٰى سُرُرٍ مَّصْفُوْفَةٍ١ۚ وَ زَوَّجْنٰهُمْ بِحُوْرٍ عِیْنٍ
مُتَّكِئِيْنَ : تکیہ لگائے ہوئے ہوں گے عَلٰي سُرُرٍ : اوپر تختوں کے مَّصْفُوْفَةٍ ۚ : صف باندھے ہوئے وَزَوَّجْنٰهُمْ : اور بیادہ دیں گے ہم ان کو بِحُوْرٍ عِيْنٍ : ساتھ سفید عورتوں کے، بڑی آنکھوں والی
وہ (نہایت آرام و سکون سے) ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے آمنے سامنے بچھے عظیم الشان تختوں پر اور ہم نے ان کو بیاہ دیا ہوگا خوبصورت آنکھوں والی حوروں سے
[ 24] اہل جنت کے آرام و راحت کی تصویر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ وہ ٹیک لگائے بیٹھے ہوں گے صف در صف بچھے ہوئے عظیم الشان تختوں پر۔ جو علامت ہے انتہائی سکون و راحت اور دلی آرام و اطمینان کی، ورنہ جو کوئی تکلیف اور پریشانی وغیرہ میں مبتلا ہو، وہ ایسے کیونکر بیٹھ سکتا ہے ؟ سو وہ خوش نصیب جنت کی ان پر کیف فضاؤں میں صف در صف بچھی نشست گاؤں پر ٹیک لگائے نہایت آرام و سکون سے بیٹھے ہوں گے۔ سو یہ ان کے کمال درجہ سکون و اطمینان کی بھی تعبیر ہے اور اس میں اس طرف بھی اشارہ ہے کہ ان کے درمیان کامل درجے کی محبت بھی ہوگی، اور بےتکلفی بھی، اسی لئے وہ وہاں پر رودررو ہو کر بیٹھے ہوں گے اسی لئے دوسرے مقام پر ان کے لئے " متقابلین " بھی فرمایا گیا ہے، کیونکہ جن لوگوں کے دلوں میں کدوت ہوتی ہے وہ اس طرح آمنے سامنے اور پرسکون طور پر نہیں بیٹھ سکتے۔ اس لئے اہل جنت کے دلوں کو ہر طرح کی کدوت سے پاک صاف کردیا گیا ہوگا جیسا کہ دوسرے مقام پر اس کی اس طرح تصریح فرمائی گئی ہے۔ { ونزعنا ما فی صدورھم من غلٍ اخوانا علی سررٍ متقبلین } [ الحجر : 47 پ 14] یعنی ہم نکال دیں گے ان کو دلوں سے جو بھی کوئی کھوٹ کھپٹ رہا ہوگا ان کے اندر۔ جس کے نتیجے میں وہ بھائیوں کی طرح عظیم الشان تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، بکل حال من الاحوال، وفی کل موطن من المواطن فی الحیاۃ، وفی کل زمان ومکان، وانت العزیز الوھاب، والھادی الی سواء السبیل، فعلیک نتوکل وبک نستعین فی کل ان وحین، وانت نعم المولیٰ ونعم النصیر، تبارکت وتعالیت۔ [ 25] اہل جنت کیلئے رشتہئِ ازدواج کا ذکر وبیان : رشتہئِ ازدواج چونکہ ایک ایسا عظیم الشان رشتہ اور قدرت کی ایک ایسی عظیم الشان نعمت ہے کہ انسان کا کوئی بھی لطف و سرور بیوی بچوں کے بغیر مکمل نہیں ہوسکتا۔ اس لئے یہاں پر ارشاد فرمایا گیا کہ ہم نے ان کی شادی کردی ہوگی آہو چشم حوروں سے۔ کہ کھانے پینے آرام و راحت اور امن و عافیت کے بعد انسان کے لئے سب سے بڑی نعمت یہی ہے۔ اور ایسی بڑی نعمت کہ اس کے بغیر زندگی ہی ناقص اور ادھوری ہوتی ہے، اور حوروں کی یہ جنس ایک خاص جنس ہوگی، جو اہل جنت کے لئے قدرت کی طرف سے بطور خاص وہاں پیدا فرمائی جائے گی، اور ان کے علاوہ ان اہل جنت کو اپنی وہ دنیاوی بیویاں بھی وہاں ملیں گی جو دخول جنت کی نعمت سے سرفراز ہوں گی، اور ان کو ایسی نئی اٹھان اور نئی زندگی سے نواز دیا گیا ہوگا کہ ان کے اندر ان عیبوں اور کمزوریوں میں سے بھی کوئی عیب اور کمزوری وہاں ان کے اندر باقی نہیں رہے گی جو دنیا میں ان کے اندر پائی جاتی تھیں، سو اہل جنت کو ملنے والی اس نعمت کے لئے جو الفاظ استعمال فرمائے گئے ہیں ان سے ہم ان کا فی الجملہ تصور ہی کرسکتے ہیں، ورنہ اس کی اصل حقیقت کو اس دنیا میں سمجھنا کسی کے لئے ممکن نہیں۔ اس کا پورا اور صحیح علم صرف اللہ تعالیٰ ہی کو ہے اور یہ صرف آخرت ہی میں واضح ہوسکے گی۔ اللہ نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین،
Top