Tafseer-e-Madani - At-Tur : 21
وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ اتَّبَعَتْهُمْ ذُرِّیَّتُهُمْ بِاِیْمَانٍ اَلْحَقْنَا بِهِمْ ذُرِّیَّتَهُمْ وَ مَاۤ اَلَتْنٰهُمْ مِّنْ عَمَلِهِمْ مِّنْ شَیْءٍ١ؕ كُلُّ امْرِئٍۭ بِمَا كَسَبَ رَهِیْنٌ
وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : اور وہ لوگ جو ایمان لائے وَاتَّبَعَتْهُمْ : اور پیروی کی ان کی ذُرِّيَّتُهُمْ : ان کی اولاد نے بِاِيْمَانٍ : ایمان کے ساتھ اَلْحَقْنَا بِهِمْ : ہم ملا دیں گے ان کے ساتھ ذُرِّيَّتَهُمْ : ان کی اولاد کو وَمَآ اَلَتْنٰهُمْ : اور نہ کمی کریں گے ہم ان کے مِّنْ عَمَلِهِمْ : ان کے عمل میں سے مِّنْ شَيْءٍ ۭ : کچھ بھی كُلُّ امْرِی : ہر شخص بِمَا كَسَبَ : ساتھ اس کے جو اس نے کمائی کی رَهِيْنٌ : رھن ہے۔ گروی ہے
اور جو لوگ ایمان لائے اور ان کی اولاد بھی ان کے نقش قدم پر چلی (دولت) ایمان کے ساتھ تو ہم ان کی ایسی اولاد کو بھی ان کے ساتھ شامل کردیں گے (جنت میں) اور ہم ان (متبوع اہل جنت) کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہیں کریں گے ہر کوئی اپنے (زندگی بھر کے) کئے (کرائے) کے بدلے میں گروی ہے1
[ 26] اہل جنت کے لئے ایک اور بشارت کا ذکر وبیان : سو اس سے اہل جنت کی تکمیل مسرت کے لئے ایک اور بشارت کا ذکر وبیان فرمایا گیا ہے کہ ان کی ایماندار اولاد کو بھی ان کے ساتھ شامل و شریک کردیا جائے گا۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ہم اہل جنت کیلئے ان کی ایماندار اولاد کو بھی ان کے ساتھ ملا دیں گے، تاکہ وہ ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دلوں کے سکون و سرور میں اضافے کا باعث نہیں۔ طبرانی (رح) میں حضرت ابن عباس ؓ ۔ سے روایت ہے کہ آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جنتی جنت میں داخل ہونے کے بعد اپنے ماں باپ اور بیوی بچوں کے بارے میں پوچھے گا کہ وہ کہاں ہیں ؟ تو اس کو جواب ملے گا کہ ان کے اعمال چونکہ تمہارے برابر نہیں تھے۔ اس لئے وہ تمہارے درجے کو نہیں پہنچ سکے۔ تو اس پر وہ جنتی شخص عرض کرے گا کہ الٰہی میں نے جو عمل کیے تھے وہ میں نے صرف اپنے ہی لئے نہیں کیے تھے بلکہ ان کے لئے بھی کیے تھے، تو اس پر ان کو بھی اس کے ساتھ شامل کردیا جائے گا۔ [ ابن کثیر، ابن جریر، مراغی وغیرہ ] ۔ سو اسی سے متعلق یہاں ارشاد فرمایا جا رہا ہے کہ ایمان و یقین کی برکت سے اور اس رشتہ وتعلق کی بناء پر ہم چھوٹے درجے والے جنتیوں کو بھی ان کے ان آباواجداد کے ساتھ ان کتے بلند درجات میں شامل کردیں گے، اور ایسا نہیں کریں گے کہ اوپر کے درجات والوں کو نیچے لاکر ان نچلے درجوں والوں میں رکھ دیا جائے کہ یہ ہماری شان کرم و عنایت کے تقاضوں کے مطابق نہیں۔ والحمدللّٰہ الذی لاحد لجودہ وکرمہ واحسانہٗ سبحانہ و تعالیٰ ۔ بہرکیف جنت میں اہل ایمان کی مسرت کی تکمیل کے لئے جو اہتمام فرمایا جائے گا یہ بشارت اسی کا ایک حصہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نصیب فرمائے اور محض اپنے فضل و کرم سے نصیب فرمائے۔ آمین ثم آمین۔ [ 27] متبوعین کے درجے میں کسی قسم کی کمی نہ کرنے کے انعام کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم ان کے عمل میں سے کچھ بھی کم نہیں کریں گے۔ بلکہ اپنے کرم سے ان کم درجہ والوں کو بلند درجہ عطاء فرما دیں گے۔ حدیث میں وارد ہے کہ حضرت خدیجہ الکبریٰ ؓ نے آنحضرت ﷺ سے اپنے ان دو بچوں کے بارے میں پوچھا جو کہ زمانہ جاہلیت میں فوت ہوگئے تھے، تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ دوزخ میں ہوں گے۔ پھر پوچھا تو آپ ﷺ سے میری جو اولاد فوت ہوگئی ہے، اس کا کیا بنے گا ؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ وہ جنت میں ہوگی۔ پھر آپ ﷺ نے فرمایا کہ اہل ایمان اور ان کی اولاد جنت میں ہوگی، اور اہل شرک اور ان کی اولاد دوزخ میں، پھر آپ ﷺ نے یہی آیت کریمہ تلاوت فرمائی، [ ابن کثیر، ابن جریر، جامع البیان وغیرہ ] بہرکیف اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ اس ضمن میں والدیّت کے عمل میں کچھ بھی کمی نہیں کی جائے گی، بلکہ وہ اپنے اسی مرتبے پر فائز رہیں گے جس کے وہ اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے مستحق قرار پائیں گے، البتہ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے ان کی اولاد کے درجے بلند کرکے ان کو ان کے درجات میں پہنچا دے گا، اگرچہ وہ اپنے ایمان و عمل کے اعتبار سے ان درجات کے مستحق نہ ہوں۔ والحمدللّٰہ جل وعلا۔ [ 28] ہر کوئی اپنی کمائی کے بدلے میں رہن ہوگا : پس جس کا عمل نیک ہوگا تو اس کو رہائی نصیب ہوجائے گی اور جس کا عمل برا ہوگا تو وہ اس کو ہلاک کر دے گا۔ سابقہ و واسطہ بہرحال اپنے ہی عمل سے ہوگا۔ کوئی کسی دوسرے کے عمل کی پاداش میں نہیں پکڑا جائے گا۔ سو ہر کسی کو اس کا عمل ہی چھڑائے گا اور عمل ہی ہلاک کرے گا۔ یہ نہیں ہوگا کہ کوئی اپنے ایمان و عمل کے بغیر محض نیکیوں سے نسبت رکھنے کے سبب جنت میں ان کے پاس پہنچ جائے۔ اللہ تعالیٰ اپنا فضل و کرم انہی پر فرمائے گا جو اپنے ایمان و عمل سے اس کا استحقاق اپنے اندر پیدا کریں گے۔ بس اس میں یہود و نصاریٰ اور مشرکین وغیرہ پر رد ہے جو ایمان و عمل کے بغیر محض بڑوں سے نسبت اور تعلق ہی کو کافی سمجھتے ہیں، اور وہ کہتے ہیں کہ۔ " نحن انبائُ اللّٰہِ واحبائُ ہٗ " یعنی ہم لوگ اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں، ہم جو چاہیں کریں کوئی پرواہ نہیں، جس طرح کہ بہت سے جاہل مسلمان بھی اسی غلط فہمی میں مبتلا ہیں اور ان کا صاف کہنا ہے کہ ہم نے فلاں کا لڑ پکڑ رکھا ہے، پس یہی بات ہمارے لئے کافی ہے، ہمیں کسی عمل وغیرہ کی کوئی ضرورت نہیں، وغیرہ وغیرہ۔
Top