Tafseer-e-Madani - At-Tur : 47
وَ اِنَّ لِلَّذِیْنَ ظَلَمُوْا عَذَابًا دُوْنَ ذٰلِكَ وَ لٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ
وَاِنَّ لِلَّذِيْنَ : اور بیشک ان لوگوں کے لیے ظَلَمُوْا : جنہوں نے ظلم کیا عَذَابًا : عذاب ہے دُوْنَ ذٰلِكَ : اس کے علاوہ وَلٰكِنَّ اَكْثَرَهُمْ : لیکن ان میں سے اکثر لَا يَعْلَمُوْنَ : علم نہیں رکھتے
اور ان لوگوں کے لئے جو اڑے ہوئے ہیں اپنے ظلم پر یقینا اس سے پہلے بھی ایک عذاب ہے مگر ان میں سے اکثر جانتے نہیں
[ 60] ظالموں کے لئے آخرت سے پہلے دنیا کے عذاب کا ذکر وبیان : سو ارشاد فرمایا گیا اور ظالموں کے لئے اس سے پہلے بھی عذاب ہے۔ یعنی آخرت کے اس حقیقی اور دائمی عذاب سے پہلے اس دنیا میں بھی ان کو مختلف قسم کے عذابوں سے واسطہ پڑتا رہے گا تاکہ شاید یہ ہوش کے ناخن لے سکیں اور اس آخری اور ہولناک انجام سے بچ سکیں۔ { ولنذیقنھم من العذاب الادنی دون العذاب الاکبر لعلہم یرجعون } [ سورة السجدہ : 21 پ 21] مگر یہ لوگ اس حقیقت کو سمجھ نہیں رہے، کہ تنبیہات سے ان کو کیا سبق مل رہے ہیں، اور یہ کی مآل کا ران کو کس انجام بد سے سابقہ پڑنے والا ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ سو یہ اسی سنت الہیہ کی طرف اشارہ ہے جس کے مطابق رسول کی تکذیب پر اڑے رہنے والوں کیلئے آخرت کے اس ہولناک عذاب سے پہلے اس دنیا میں بھی عذاب آتا ہے۔ اور یہ عذاب اللہ تعالیٰ کی اسی سنت کے مطابق قریش کے مکذبین پر بھی اسی دنیا میں آیا۔ چناچہ وہ سب کے سب آنحضرت ﷺ کی حیات طیبہ کے دوران اور اسی دنیا میں ذلیل و خوار ہوئے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم من کل زیغ و ضلال۔ [ 61] اکثریت بےعلم اور جاہل لوگوں کی : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اکثر لوگ جانتے نہیں۔ یعنی وہ جانتے نہیں حق اور حقیقت کو، اسلئے وہ طرح طرح کے اندھیروں میں ہی ڈوبے رہتے ہیں۔ والعیاذ باللّٰہ۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ لوگوں کی اکثریت حق اور حقیقت کے علم و ادراک سے عاری اور دور محروم ہی ہوتی ہے۔ پس عوام کی اکثریت کا کسی طرف ہوجانا اس کی صداقت و حقانیت کی دلیل نہیں بن سکتا جس طرح کہ دور حاضر میں مغربی جمہوریت کے نوساختہ بت کے پجاریوں کا کہنا ماننا ہے، جس کے مطابق لوگوں کو تولا نہیں جاتا گنا جاتا ہے، اور جس کے مطابق ایک بڑے علم و فضل کے مالک شخص کا بھی ایک ہی ووٹ ہوتا ہے اور ایک ان پڑھ، جاہل گنوار اور بھنگی چرسی شخص کا بھی ایک ووٹ ہے، نیز جیسا کہ ہمارے دور کے اہل بدعت کا کہنا ہے کہ فلاں فلاں رسومات کو چونکہ عوام کالانعام کی اکثریت کی تائید حاصل ہے اس لئے وہ درست ہیں۔ سو مدار عوام کی قلت و کثرت پر نہیں، بلکہ قوت حق و صدق پر ہے، اور حق عبادت ہے " ماقال اللّٰہُ وقال الرسول " سے۔ پس جو اللہ فرمائے اور اس کا رسول فرمائے وہ بہرحال حق اور صدق ہے اگرچہ اس کا ساتھ بھی نہ دے۔ والعیاذ باللّٰہ۔ اور جو بات اللہ اور اس کے رسول کے ارشاد کے خلاف ہوگی وہ بہرحال باطل اور مردہ ہوگی ہے خواہ دنیا ساری بھی اس کی تائید میں کیوں نہ ہو۔ سو عوام کی اکثریت حجت اور سند نہیں ہوسکتی۔ حجت وسند اللہ اور اس کے رسول کا فرمان و ارشاد ہوتا ہے، اس کے مقابلے میں کسی کی بھی کوئی حیثیت ووقعت نہیں ہوسکتی، خواہ وہ کوئی فرد ہو یا جماعت،
Top