Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 151
اِنَّ عَذَابَ رَبِّكَ لَوَاقِعٌۙ
اِنَّ عَذَابَ : بیشک عذاب رَبِّكَ : تیرے رب کا لَوَاقِعٌ : البتہ واقع ہونے والا ہے
بیشک تمہارے رب کے عذاب نے بہرحال ہو کر رہنا ہے
[ 7] جواب قسم کا ذکر وبیان : سو ان چھ قسموں کے بعد جو اب قسم کے ذکر وبیان کے طور پر ارشاد فرمایا گیا بیشک تمہارے رب کے عذاب نے بہرحال واقع ہو کر رہنا ہے۔ سو یہ جواب ہے ان سب قسموں کا جن کا ذکر اوپر ہوا کہ یہ سب قسمیں اللہ پاک کی عظیم الشان اور بےپایاں قدرت کا پتہ دیتی ہیں اس لئے نہ تو یہ عجیب و غریب عالم بےمقصد ہوسکتا ہے، اور نہ ہی اس عالم کی ان سب چیزوں سے فائدہ اٹھانے والا حضرت انسان جواب دہی اور بازپرسی سے بچ سکتا ہے، پس بدلے اور انصاف کے اس دن کا آنا عقل سلیم اور فطرت مستقیم کے تقاضوں کے عین مطابق ہے، تاکہ اس طرح ہر کسی کو اس کے زندگی بھر کے کیے کرائے کا پورا پورا بدلہ وصلہ مل سکے، نیکوں کو ان کی نیکی کا، اور بروں کو ان کی برائی کا، اور اس طرح عدل و انصاف کے تقاضے اپنی آخری اور کامل شکل میں پورے ہو سکیں، اور اس طرح اس دنیا اور اس کے گل سرسبد یعنی حضرت انسان کی تخلیق اور اس کے مقصد وجود کی تکمیل ہو سکے، کیونکہ سزاوجزا کے تصور کے بغیر یہ سارا کارخانہ ہست و بود ہی عبث اور بیکار ہو کر رہ جاتا ہے، کیونکہ اس صورت میں اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خیر و شر اور نیک و بد سب برابر ہیں، والعیاذ باللّٰہ، پس عقل و نقل کا تقاضا ہے کہ ایک ایسا یوم فصل و جزا آئے جس میں نیک و بد ہر ایک کو اس کے کیے کرائے کا پورا پورا صلہ و بدلہ ملے، سو وہی یوم قیامت ہے، جس نے اس دنیا کے بعد آنا ہے، اور بہرحال آکر رہنا ہے۔ سو عقل و دانشمندی کا تقاضا یہ ہے کہ اس یوم حساب کو اور اس کے تقاضوں کو اور اس کے مقصد کو ہمیشہ پیش نظر رکھا جائے کہ وہاں کی کامیابی ہی اصل کامیابی ہے وباللہ التوفیق۔ اور وہاں کی ناکامیہی سب سے بڑی اور ہولناک ناکامی ہے۔ والعیاذ باللّٰہ العظیم۔ اللہ ہمیشہ ہر حال میں او ہر اعتبار سے اپنی رضا و خوشنودی کی راہوں پر گامزن رکھے۔ اور نفس شیطان کے ہر مکر و فریب سے ہمیشہ اپنی حفاظت و پناہ میں رکھے۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین یا ارحم الراحمین واکرم الاکرمین، سبحانہ وتعالیٰ جل و علا۔
Top