Tafseer-e-Madani - Al-Hadid : 26
وَ لَقَدْ اَرْسَلْنَا نُوْحًا وَّ اِبْرٰهِیْمَ وَ جَعَلْنَا فِیْ ذُرِّیَّتِهِمَا النُّبُوَّةَ وَ الْكِتٰبَ فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ   ۧ
وَلَقَدْ : اور البتہ تحقیق اَرْسَلْنَا نُوْحًا : بھیجا ہم نے نوح کو وَّاِبْرٰهِيْمَ : اور ابراہیم کو وَجَعَلْنَا : اور بنایا ہم نے۔ رکھا ہم نے فِيْ ذُرِّيَّتِهِمَا : ان دونوں کی اولاد میں النُّبُوَّةَ : نبوت کو وَالْكِتٰبَ : اور کتاب کو فَمِنْهُمْ مُّهْتَدٍ ۚ : تو بعض ان میں سے ہدایت یافتہ ہیں وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ : اور بہت سے ان میں سے فٰسِقُوْنَ : فاسق ہیں
اور بلاشبہ ہم ہی نے بھیجا (اس سے پہلے) نوح اور ابراہیم کو پیغمبر بنا کر اور ان ہی دونوں کی نسل میں ہم نے نبوت بھی رکھ دی اور کتاب بھی پھر ان میں سے کچھ تو راہ راست پر رہے مگر ان میں سے زیادہ تر پھر بھی بدکار ہی رہے1
[ 105] تمام انبیاء ورسل کا مشن ومقصد ہمیشہ ایک ہی رہا : سو اس ارشاد سے اس امر کو واضح فرمادیا گیا کہ تمام انبیاء ورسل کا مشن ومقصد اور ان یعنی لوگوں کے درمیان عدل وانصاف کو قائم کرنا کیونکہ اس کائنات کے خالق ومالک جل جلالہ وعم نوالہ کی شان اور صفت " قائما بالقسط " کی شان اور صفات ہے اور اس کائنات کا تکوینی نظام پورے کا پورا غایت درجہ عدل وقسط اور توازن پر مبنی اور قائم ہے، اور اس طور پر کہ اگر اس میں ذرہ برابر بھی خلل واقع ہوجائے تو یہ سارا نظام درہم برہم ہوجائے، اس لئے وہ چاہتا ہے کہ اس کا تشریعی نظام بھی عدل وقسط ہی پر قائم ہو۔ کا نصب العین ہمیشہ ایک ہی رہا اور شریعی نظام کی اساس و بنیاد چونکہ انسان کے ارادہ واختیار پر ہے اس لئے اس نے اپنے بھیجے ہوئے انبیاء ورسل اور اپنی اتاری ہوئی کتب وشرائع کے ذریعے انسانوں کو عدل وقسط کے قیام ہی کی دعوت دی کہ یہی تقاضاء ِ عقل ونقل ہے اور اسی میں خود انسان کا اپنا بھی بھلا ہے، اور مجموعی طور پر اس کائنات کی بہتری بھی اسی میں ہے اور یہاں پر حضرات انبیاء ورسل میں سے صرف دو ہستیوں کے ناموں کی تصریح فرمائی گئی، یعنی حضرت نوع (علیہ السلام) اور حضرت ابراہیم علیہ السلام۔ اور وجہ اس کی ظاہر ہے، کیونکہ حضرت نوح (علیہ السلام) کی حیثیت آدم ثانی کی ہے۔
Top