Tafseer-e-Madani - Al-An'aam : 83
وَ تِلْكَ حُجَّتُنَاۤ اٰتَیْنٰهَاۤ اِبْرٰهِیْمَ عَلٰى قَوْمِهٖ١ؕ نَرْفَعُ دَرَجٰتٍ مَّنْ نَّشَآءُ١ؕ اِنَّ رَبَّكَ حَكِیْمٌ عَلِیْمٌ
وَتِلْكَ : اور یہ حُجَّتُنَآ : ہماری دلیل اٰتَيْنٰهَآ : ہم نے یہ دی اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم عَلٰي : پر قَوْمِهٖ : اس کی قوم نَرْفَعُ : ہم بلند کرتے ہیں دَرَجٰتٍ : درجے مَّنْ : جو۔ جس نَّشَآءُ : ہم چاہیں اِنَّ : بیشک رَبَّكَ : تمہارا رب حَكِيْمٌ : حکمت والا عَلِيْمٌ : جاننے والا
اور یہ تھی ہماری وہ حجت جو ہم نے ابراہیم کو عطا کی تھی ان کی قوم کے مقابلے میں ہم جس کے چاہیں درجے بلند کردیتے ہیں، بلاشبہ تمہارا رب بڑا ہی حکمت والا، سب کچھ جانتا ہے،1
151 عطا و بخشش اللہ ہی کی طرف سے ہوتی ہے اور ہوسکتی ہے : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ہم جس کے چاہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ پس بزرگی و کمال دراصل ہماری عطا و بخشش ہی پر موقوف ہے نہ کہ انسان کے اپنے کسب و اختیار پر۔ اور سب سے بڑا درجہ و مرتبہ جو کسی انسان کے لئے ممکن ہوسکتا ہے وہ ہے نبوت و رسالت کا مرتبہ و مقام۔ جو کہ محض اللہ پاک کا عطیہ و احسان ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ ۔ اس لئے وہی بہتر جانتا ہے کہ اس شرف و مرتبہ سے کس کو مشرف و سرفراز فرمائے ۔ { اَللّٰہُ اَعْلُمُ حَیْثُ یَجْعَلُ رِسَالَتَہٗ } ۔ اور انبیاء و رسل اس سب سے بڑے درجہ و مرتبہ سے سرفراز ہونے کے باوجود اپنی اصل اور حقیقت کے اعتبار سے ہوتے بہرحال بشر ہی ہیں۔ اور نفس بشریت میں وہ دوسروں کے مثل و مساوی ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ہمارے حضور کو حصر و تاکید کے ساتھ اس حقیقت کے اظہار وبیان کا حکم و ارشاد اللہ پاک کی طرف سے قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے۔ چناچہ ارشاد ہوتا ہے ۔ { قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِِّثْلُکُمْ یُوْحٰیٓ اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ } ۔ " کہو سوائے اس کے نہیں کہ میں تو ایک بشر ہوں تم ہی جیسا، میری طرف یہ وحی کی جاتی کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے "۔ اور وحی کے اس شرف و امتیاز کی وجہ سے میرا درجہ و مرتبہ تو تم سب سے بڑھ کر ہے لیکن اصل بشریت میں بہرحال میں تم ہی جیسا ایک بشر ہوں۔ پس اس کے برعکس اہل بدعت کے بعض بڑوں کا اس موقع پر اپنے حواشی تفسیریہ[ بلکہ تحریفیہ ] میں یہ کہنا کہ کوئی نبی کی مثل نہیں ہوتا۔ اگر وہ ہماری مثل ہوں تو اس آیت کے خلاف ہوگا، سراسر باطل و مردود ہے۔ اور ایسا کہنا اس آیت کے خلاف ہونے کا سوال ہی نہیں۔ البتہ موصوف کی اس خانہ ساز منطق اور ذہنی اپج سے سورة کہف کی مذکورہ بالا آیت کریمہ اور اس طرح کی دوسری آیات کریمہ کی صریح اور کھلم کھلا مخالفت اور خلاف ورزی ضرور لازم آتی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ یہ ہماری وہ حجت ہے جو ہم نے حضرت ابراہیم کو ان کی قوم کے مقابلے میں عطا فرمائی تھی اور ہم جس کے درجے چاہتے ہیں بلند کردیتے ہیں۔ اور یہ سب کچھ نہایت علم اور حکمت پر مبنی ہوتا ہے کہ تمہارا رب بڑا ہی حکیم اور علیم ہے۔ وہ جو کچھ کرتا ہے علم وحکمت کے تقاضوں کے عین مطابق ہی کرتا ہے ۔ سبحانہ و تعالیٰ -
Top