Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 146
سَاَصْرِفُ عَنْ اٰیٰتِیَ الَّذِیْنَ یَتَكَبَّرُوْنَ فِی الْاَرْضِ بِغَیْرِ الْحَقِّ١ؕ وَ اِنْ یَّرَوْا كُلَّ اٰیَةٍ لَّا یُؤْمِنُوْا بِهَا١ۚ وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الرُّشْدِ لَا یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا١ۚ وَ اِنْ یَّرَوْا سَبِیْلَ الْغَیِّ یَتَّخِذُوْهُ سَبِیْلًا١ؕ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ كَانُوْا عَنْهَا غٰفِلِیْنَ
سَاَصْرِفُ : میں عنقریب پھیر دوں گا عَنْ : سے اٰيٰتِيَ : اپنی آیات الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَتَكَبَّرُوْنَ : تکبر کرتے ہیں فِي الْاَرْضِ : زمین میں بِغَيْرِ الْحَقِّ : ناحق وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : وہ دیکھ لیں كُلَّ اٰيَةٍ : ہر نشانی لَّا يُؤْمِنُوْا : نہ ایمان لائیں بِهَا : اس پر وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : دیکھ لیں سَبِيْلَ : راستہ الرُّشْدِ : ہدایت لَا يَتَّخِذُوْهُ : نہ پکڑیں (اختیار کریں) سَبِيْلًا : راستہ وَاِنْ : اور اگر يَّرَوْا : دیکھ لیں سَبِيْلَ : راستہ الْغَيِّ : گمراہی يَتَّخِذُوْهُ : اختیار کرلیں اسے سَبِيْلًا : راستہ ذٰلِكَ : یہ بِاَنَّهُمْ : اس لیے کہ انہوں نے كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو وَكَانُوْا : اور تھے عَنْهَا : اس سے غٰفِلِيْنَ :غافل (جمع)
میں پھیر دوں گا، اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو جو تکبر کرتے ہیں زمین میں ناحق طور پر،2 اور (ان کی ہٹ دھرمی کا عالم یہ ہے کہ) اگر یہ (حق کو واضح کرنے والی) ہر نشانی کو بھی دیکھ لیں تو بھی یہ اس پر ایمان لانے کے نہیں، اگر یہ ہدایت کا راستہ دیکھیں تو اسے راستہ نہیں بنا دے اور اگر گمراہی کا راستہ دیکھیں تو اسے (فورا) اپنا راستہ بنا لیتے ہیں، یہ اس لئے کہ انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور یہ ان سے غفلت (اور لاپرواہی) برتنے والے تھے،
192 کبر و غرور باعث خسران و محرومی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ میں پھیر دوں گا اپنی آیتوں سے ان لوگوں کو جو ناحق طور پر تکبر کرتے ہیں اللہ کی زمین میں۔ پس تکبر و استکبار سبب حرمان اور باعث محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ جبکہ اس کے مقابلے میں اللہ پاک کے حضور عجز و انکسار، رفعت شان کا ذریعہ و وسیلہ ہے جیسا کہ ارشاد نبوی میں فرمایا گیا ہے " مَنْ تَوَاضَعَ لِلّٰہِ رَفَعَہُ اللّٰہُ " کہ عظمت وکبریائی اسی وحدہ لاشریک کا حق اور اسی کی شان ہے۔ بندہ کی عظمت اپنی عبدیت و بندگی میں کمال پیدا کرنا ہے ۔ وباللہ التوفیق ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ جو لوگ اللہ کی زمین پر رہنے بسنے کے باوجود اس سے بےنیازی برتیں گے، وہ اللہ تعالیٰ کی ان ہدایات کو اپنانے کی توفیق سے محروم ہوں گے۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 193 ہٹ دھرمی موجب خزی و حرمان ۔ والعیاذ باللہ : سو اس ارشاد سے واضح فرما دیا گیا کہ کبر و غرور اور عناد وہٹ دھرمی موجب خزی و رسوائی اور باعث ہلاکت و تباہی ہے جبکہ اس کے مقابلے میں طلب و تلاشِ حق دارین کی سعادت سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ کیونکہ ایمان کی توفیق وسعادت انہی لوگوں کو نصیب ہوتی ہے جن کے دلوں میں حق کی طلب و تلاش ہوتی ہے۔ اور یہ لوگ اپنی شقاوت و بدبختی اور ضدو ہٹ دھرمی کی بناء پر اس سے بےبہرہ اور محروم ہوتے ہیں۔ تو پھر ان کو نور ایمان اور دولت ہدایت و یقین سے سرفرازی کس طرح اور کیونکر نصیب ہوسکتی ہے ؟ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو طلب و تلاشِ حق دارین کی سعادت و سرخروئی سے سرفرازی کا ذریعہ و وسیلہ ہے۔ اور اس سے محرومی ہر خیر سے محرومی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ پس عناد و ہٹ دھرمی باعث محرومی و خسارہ اور موجب خزی و رسوائی ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 194 غفلت و لاپرواہی خرابیوں کی خرابی ۔ والعیاذ باللہ : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ان منکر اور معاند لوگوں کا یہ حال و مآل اس لیے ہے کہ انہوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو اور یہ ان سے غفلت اور لاپرواہی برتنے والے لوگ تھے۔ سو اس سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی آیتوں کی تکذیب یعنی ان کو جھٹلانا اور ان سے غفلت و لاپرواہی برتنا سب خرابیوں اور فتنوں کی جڑ بنیاد ہے۔ مگر افسوس کہ آج غیر تو غیر رہے خود مسلمان کہلانے والوں کا ایک بڑا طبقہ اسی مرض کا مریض اور اسی وباء کا شکار ہے جس کے مظاہر یہاں اور وہاں جگہ جگہ اور طرح طرح سے نظر آتے ہیں۔ مگر اس ام الامراض کا کسی کو احساس و شعور بھی نہیں ۔ اِلا مَا شَآئَ اللّٰہُ ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ بہرکیف ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں کی یہ حالت اور محرومی اس بات کا نتیجہ ہوتی ہے کہ یہ لوگ خدا تعالیٰ کی نشانیوں کو جھٹلاتے اور ان سے لاپرواہی برتتے ہیں۔ ان کے پاس اگر واضح سے واضح نشانی بھی آجائے تو یہ اس کو جھٹلا دیتے ہیں۔ اس وجہ سے یہ حق و ہدایت کی راہ سے دور بھاگتے ہیں۔ اور ان کو اگر گمراہی کی دعوت دی جائے تو اس کو یہ فوراً اپنا لیتے ہیں لیکن یہ حق کی دعوت کو ماننے اور قبول کرنے کے لیے تیارہ نہیں ہوتے ۔ الا ماشاء اللہ ۔ والعیاذ باللہ -
Top