Tafseer-e-Madani - Al-A'raaf : 147
وَ الَّذِیْنَ كَذَّبُوْا بِاٰیٰتِنَا وَ لِقَآءِ الْاٰخِرَةِ حَبِطَتْ اَعْمَالُهُمْ١ؕ هَلْ یُجْزَوْنَ اِلَّا مَا كَانُوْا یَعْمَلُوْنَ۠   ۧ
وَالَّذِيْنَ : اور جو لوگ كَذَّبُوْا : جھٹلایا بِاٰيٰتِنَا : ہماری آیات کو وَلِقَآءِ : اور ملاقات الْاٰخِرَةِ : حَبِطَتْ : ضائع ہوگئے اَعْمَالُهُمْ : ان کے عمل هَلْ : کیا يُجْزَوْنَ : وہ بدلہ پائیں گے اِلَّا : مگر مَا : جو كَانُوْا يَعْمَلُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور جن لوگوں نے جھٹلایا ہماری آیتوں کو، اور آخرت کی پیشی کو، اکارت چلے گئے ان کے سب عمل، ان کو بدلہ نہیں دیا جائے گا مگر ان اپنے انہی کاموں کا جو وہ خود کرتے رہے تھے،1
195 منکروں کے سب عمل حبط و اکارت : سو ارشاد فرمایا گیا کہ اکارت چلے گئے ان کے سب عمل یعنی ان کے وہ عمل جو ایسے لوگ نیکی اور بھلائی سمجھ کر کرتے رہے تھے، جیسے غریبوں کی مدد کرنا، رفاہی ادارے قائم کرنا اور عام لوگوں کے لئے ہسپتال اور سڑکیں وغیرہ بنانا کہ انہوں نے یہ کام سچے ایمان و یقین کے ساتھ اور اللہ تعالیٰ کی رضاء و خوشنودی کے لئے سرے سے کئے ہی نہیں تھے۔ کہ اللہ تعالیٰ اور آخرت پر ان کا صدق دل سے اور صحیح معنوں میں ایمان تھا ہی نہیں اور ہوتا ہی نہیں الا ماشاء اللہ ۔ انہوں نے جو بھی کچھ کیا وہ محض دنیاوی اغراض و مقاصد کے پیش نظر ہی کیا۔ اور دنیا میں ان کو ایسے کاموں کا بدلہ طرح طرح سے دیا جا چکا اور بس۔ آخرت میں ان کیلئے نہ کوئی صلہ نہ بدلہ سو ائے دوزخ کی دہکتی بھڑکتی آگ کے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ ایسے لوگ چونکہ اللہ کی آیتوں اور آخرت کی ملاقات اور پیشی کو جھٹلاتے ہیں اس لئے ان کی زندگی کا رخ ہی بدل جاتا ہے۔ اور اس صورت میں ان کا کوئی بھی عمل آخرت اور خدا تعالیٰ کی رضا و خوشنودی کے لئے ہو ہی نہیں سکتا۔ سو ایسے میں یہ لوگ جو بھی کوئی کام کریں گے وہ اسی دنیاوی زندگی اور اس کے فانی اور محدود مفادات ہی کے لئے کریں گے۔ اس لئے آخرت میں ان کے کسی عمل کی کوئی قدر و قیمت ہو ہی نہیں سکتی کہ وہاں پر قیمت اسی عمل کی ہوسکتی ہے جو اللہ کے لئے کیا جائے۔ اور ایمان و یقین اور صدق و اخلاص کے ساتھ کیا جائے ۔ وباللہ التوفیق لما یحب ویرید وعلی ما یحب ویرید وہو الہادی الی سواء السبیل ۔ سبحانہ وتعالی - 196 انسان کو اپنے کیے ہی کا بدلہ ملے گا : سو ارشاد فرمایا کہ ان لوگوں کو بدلہ نہیں ملے گا مگر ان کے انہی کاموں کا جو یہ خود کرتے رہے تھے۔ پس ایسے لوگ اپنے کئے کرائے کی سزا پانے پر اپنے سوا اور کسی کو ملامت نہ کریں، جیسا کہ مشہور حدیث قدسی میں فرمایا گیا کہ جو کوئی اپنے نامہ اعمال میں اچھے عمل اور نیکیاں پائے وہ اللہ کا شکر ادا کرے کہ اسی کی توفیق و عنایت سے اس کو یہ سعادت نصیب ہوئی۔ اور جس کا معاملہ اس کے برعکس ہو وہ اپنے سوا کسی کو برا نہ کہے کہ اسکا ذمہ دار وہ خود ہے " فَمَنْ وجَدَ خَیْرًا فَالْیَحْمَدِ اللّٰہَ ، وَمَنْ وَجَدَ غَیْرَ ذَالِکَ فَلَا یَلُوْمَنَّ الاّ نَفْسہ " سو منکرین آخرت کے جو اعمال اکارت چلے گئے اس کے ذمہ دار یہ لوگ خود ہیں کہ انکار آخرت کے جس جرم کی بناء پر ان کے اعمال اکارت چلے گئے اس کا ارتکاب انہوں نے خود کیا تھا ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ سو اللہ تعالیٰ ہمیشہ اپنی رضا کی راہوں پر چلنا نصیب فرمائے ۔ آمین۔
Top