Tafseer-e-Madani - Nooh : 14
وَ قَدْ خَلَقَكُمْ اَطْوَارًا
وَقَدْ خَلَقَكُمْ : اور تحقیق اس نے پیدا کیا تم کو اَطْوَارًا : طرح طرح سے
حالانکہ اس نے تم کو پیدا کیا طرح طرح سے (اور مختلف مراحل سے گزار کر)
15 انسان کے خود اپنے وجود کے اندر عظیم الشان سامان غور و فکر : ۔ سو انسان کے خود اپنے وجود میں سامان غور و فکر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ارشاد فرمایا گیا کہ تم لوگوں کو کیا ہوگیا کہ تم اپنے رب کے لئے کسی وفا کی امید نہیں رکھتے۔ حالانکہ اسی نے تم کو پیدا فرمایا طور در طور۔ کبھی تم نطفہ کی شکل میں تھے پھر علقہ بنے اور پھر مضغہ، پھر اس قادر مطلق نے تمہاری ہڈیاں بنائیں، پھر ان پر گوشت چڑھایا اور پھر تم کو ایک اور ہی مخلوق کی شکل میں وجود بخشا اور یہ سب کچھ ایک طرف تو اس کی بےپایاں قدرت کا پتہ دیتا ہے اور دوسری طرف یہ اس وحدہ لاشریک کی بےنہایت رحمت کا بھی ایک عظیم الشان مظہر و ثبوت ہے۔ سبحانہ و تعالیٰ سو اس کے باوجود اگر تم لوگ اس کے لئے کسی عظمت و وقار کی توقع نہیں رکھتے اور اس سے غافل اور اس کے منکر ہو۔ والعیاذ باللہ تو تم سے بڑھ کر ظالم اور بےانصاف اور کون ہوسکتا ہے اور اس سے بڑھ کر ناشکری اور بےانصافی اور ظلم اور کیا ہوسکتا ہے ؟۔ والعیاذ باللہ العظیم بہر کیف اس سے خود انسان کے اپنے وجود کے اندر موجود سامان غور و فکر کی طرف توجہ دلائی گئی ہے جس میں غور و فکر سے کام لے کر انسان اپنے خالق ومالک کی قدرت و حکمت، اس کی رحمت و عنایت اور اس کی وحدانیت ویکتائی کے لئے عظیم الشان دلائل سے بہرہ ور ہوسکتا ہے۔ نیز یہ کہ اس انسان کی حکمتوں بھری تخلیق اور اس کا یہ وجود عبث و بیکار نہیں ہوسکتا۔ نیز یہ کہ جس خالق ومالک نے اس کو وجود بخشا ہے اس کے لئے اس کو دوبارہ زندہ کر کے اٹھانا کچھ بھی مشکل نہیں ہوسکتا اور اس کا دوبارہ اٹھایا جانا اس خالق ومالک کی حکمت اور اس کی شان عدل و قسط کا تقاضا ہے۔ سو انسان کے اپنے وجود میں یہ عظیم الشان دلائل قدرت و حکمت موجود ہیں لیکن مشکل اور مشکلوں کی مشکل یہ ہے کہ انسان اس طرف توجہ ہی نہیں کرتا اور سوچتا ہی نہیں۔ اس نے خواہشات نفس ہی کو اپنا قبلہ مقصود بنا لیا ہے۔ الا ماشاء اللہ۔ والعیاذ باللہ جل وعلا بکل حال من الاحوال
Top