Tafseer-e-Madani - Al-Qalam : 68
لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَهٗ عَلٰى بَعْضٍ فَیَرْكُمَهٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَهٗ فِیْ جَهَنَّمَ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لِيَمِيْزَ : تاکہ جدا کردے اللّٰهُ : اللہ الْخَبِيْثَ : گندا مِنَ : سے الطَّيِّبِ : پاک وَيَجْعَلَ : اور رکھے الْخَبِيْثَ : گندا بَعْضَهٗ : اس کے ایک عَلٰي : پر بَعْضٍ : دوسرے فَيَرْكُمَهٗ : پھر ڈھیر کردے جَمِيْعًا : سب فَيَجْعَلَهٗ : پھر ڈال دے اس کو فِيْ : میں جَهَنَّمَ : جہنم اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
تاکہ اللہ جدا کر دے ناپاک کو پاک سے، اور ناپاک کو ایک دوسرے پر رکھ کر سب کو ایک ڈھیر بنا دے، پھر ان سب کو یکجا کر کے جھونک دے دوزخ میں، یہی لوگ ہیں خسارے والے،3
65 ناپاک کو پاک سے الگ کرنے کے مقصد کا ذکر : سو ارشاد فرمایا گیا کہ ایسا اس لیے کیا جائے گا کہ تاکہ اللہ جدا کردے ناپاکوں کو پاکوں سے۔ عملی طور پر اس طرح کہ ناپاکوں کو ان کے اپنے کئے کرائے کے باعث دوزخ میں جھونک دے اور پاکوں کو وہ اپنے فضل و کرم سے نعمتوں سے بھری جنت میں داخل فرما دے تاکہ ہر کوئی اپنے کئے کا بھرپور صلہ و بدلہ پا سکے۔ ۔ فَوَفِّقْنَا اللّٰہُمَّ لِمَا تُحِبُّ وَتَرْضٰی حَتَّی نَحْظٰی وَنَتَشَرَّفَ بِنَعِیْمِ جَنَّتِکَ وَمَرْضَاتِکَ ۔ اور طیب و خبیث یعنی پاکوں اور ناپاکوں کے درمیان یہ نسبت وتمیز آخرت کے اس جہاں میں کامل اور اس کی حقیقی شکل میں ہوگی تاکہ عدل و انصاف کے تقاضے اپنی کامل اور آخری شکل میں پورے ہوسکیں۔ سو بندئہ مومن ایک پاکیزہ انسان ہوتا ہے جس کا قلب وباطن کفر و شرک کی ہر آمیزش سے پاک ہوتا ہے اور اس کا سینہ ایمان و یقین کے نور سے منور ہوتا ہے۔ اسی طرح اس کی زبان پاک ہوتی ہے کلمہ کفر و شرک سے اور اس کا جسم اور کپڑا پاک ہوتا ہے ہر قسم کی نجاست و ناپاکی سے۔ اور اس کا کھانا پینا پاک ہوتا ہے ہر قسم کی حرمت اور ناپاکی کے ہر شائبہ سے۔ سو ایسے ہی پاکیزہ اور خوش نصیب لوگ جنت کے اس پاکیزہ جہاں اور وہاں کی نعیم مقیم کے اہل ہوں گے ۔ جعلنا اللہ منہم ۔ اللہ نصیب فرمائے ۔ آمین ثم آمین یا رب العالمین۔ 66 اہل باطل ایک دوسرے کے عذاب میں اضافے کا باعث ۔ والعیاذ باللہ : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ کافر و مشرک ایک دوسرے کے لیے دوزخ کی آگ کے بھڑکاؤ میں اضافے کا باعث بنیں گے۔ سو ارشاد فرمایا گیا کہ ناپاکوں کو ایک دوسرے پر رکھ کر ڈھیر بنادیا جائے گا اور پھر ان سب کو یکجا طور پر دوزخ میں جھونک دیا جائے گا تاکہ جس طرح وہ دنیا میں ایک دوسرے کے معاون اور مددگار بنے ہوئے تھے اسی طرح وہاں پر ایک دوسرے کے لیے اس ہولناک آگ کے بھڑکاؤ میں اضافے اور اس کی تیزی اور شدت کا ذریعہ بنیں اور یہی سب سے بڑا خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ سو دولت ایمان سے محرومی سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ ۔ کہ اس کا انجام جہنم ہے۔ اور جہنم کا عذاب ایسا عذاب الیم ہے جس جیسا دوسرا کوئی عذاب ہوسکتا ہی نہیں۔ سو اول تو ایسے ہولناک عذاب الیم میں داخل ہونا ہی ایک ایسا ہولناک اور روح فرسا امر ہے جس کا تصور بھی گراں ہے۔ اگرچہ وہ تھوڑی سی دیر ہی کے لئے کیوں نہ ہو۔ تو پھر اس میں ابنائے کفر و باطل کا گھسنا اور ہمیشہ کے لئے اس کا ایندھن بننا جس قدر بڑا خسارہ اور نقصان ہوسکتا ہے اس کو لفظوں میں بیان کرنا کس طرح ممکن ہوسکتا ہے ؟۔ سو خسارہ اصل میں یہی خسارہ ہے جو کہ ابدی اور سب سے بڑا اور ہولناک خسارہ ہے۔ جس سے دولت ایمان و یقین سے محروم ان بدبخت لوگوں کو دوچار ہونا ہے۔ اور جس سے رہائی اور گلو خلاصی کی بھی پھر کوئی صورت انکے لئے ممکن نہ ہو سکے گی۔ سو دولت ایمان سے محرومی سب سے بڑا اور انتہائی ہولناک خسارہ ہے ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ اس کے بالمقابل دولت ایمان و یقین سے سرفرازی سب سے بڑی سرفرازی ہے ۔ وباللہ التوفیق -
Top