Tafseer Ibn-e-Kaseer - An-Najm : 64
لِیَمِیْزَ اللّٰهُ الْخَبِیْثَ مِنَ الطَّیِّبِ وَ یَجْعَلَ الْخَبِیْثَ بَعْضَهٗ عَلٰى بَعْضٍ فَیَرْكُمَهٗ جَمِیْعًا فَیَجْعَلَهٗ فِیْ جَهَنَّمَ١ؕ اُولٰٓئِكَ هُمُ الْخٰسِرُوْنَ۠   ۧ
لِيَمِيْزَ : تاکہ جدا کردے اللّٰهُ : اللہ الْخَبِيْثَ : گندا مِنَ : سے الطَّيِّبِ : پاک وَيَجْعَلَ : اور رکھے الْخَبِيْثَ : گندا بَعْضَهٗ : اس کے ایک عَلٰي : پر بَعْضٍ : دوسرے فَيَرْكُمَهٗ : پھر ڈھیر کردے جَمِيْعًا : سب فَيَجْعَلَهٗ : پھر ڈال دے اس کو فِيْ : میں جَهَنَّمَ : جہنم اُولٰٓئِكَ : یہی لوگ هُمُ : وہ الْخٰسِرُوْنَ : خسارہ پانے والے
یعنی ان لوگوں کو جو بڑے گناہوں اور کھلی بےحیائیوں سے بچتے رہے مگر یہ کہ کبھی کسی برائی پر پائوں پڑگئے۔ سو تیرے رب کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے، وہ تم کو خوب جانتا ہے جب کہ اس نے تم کو زمین سے پیدا کیا اور جب کہ تم اپنی نائوں کے پیٹوں میں جنین کی شکل میں رہے، تو اپنے کو پاکیزہ نہ ٹھہرائو وہ ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جنہوں نے تقویٰ اختیار کیا ہے۔
(الذین یجتنبون کبیرالاثم والفواحش الا المم ان ربک واسمع المغفرۃ ھو اعلم بکم اذا نشاکم من الارض واذا انتم اجنۃ فی بطون امتھکم فلا تزکوانفسکم ھو اعلم بمن اتقی) (32) (انسان سے اللہ تعالیٰ کا اصل مطالبہ) فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں نیک وہ ہیں جو بڑے گناہوں اور کھلی ہوئی بےحیائیوں سے بچنے والے ہیں، ان سے اگر کوئی برائی صادر ہوتی ہے تو اس کی نوعیت بس یہ ہوتی ہے کہ گویا چلتے چلتے کسی گندگی پر پائوں پڑگئے۔ وہ کبھی ٹھوکر کھا کر کسی گناہ میں مبتلا تو ہوجاتے ہیں لیکن جس طرح کوئی صفائی پسند کسی گندگی پر اپنا بستر نہیں ڈال دیتا بلکہ جلد سے جلد اس سے دور ہونے کی کوشش کرتا ہے اس طرح یہ بھی نہیں کرتے کہ اس گناہ ہی کو اپنا اوڑھنا بچھونا بنا لیں، جلد سے جلد تو بہ و اصلاح کے ذریعے سے اس سے پاک ہونے کی کوشش کرتے ہیں۔ المام اور لمم کے اصل معنی کسی جگہ ذرا ادیر کے لیے اتر پڑتے کے ہیں، مجاہد اور ابن عباس سے لمم کا مفہوم یہ نقل ہوا ہے کہ آدمی کسی گناہ میں آلودہ تو ہوجائے لیکن پھر اس سے کنارہ کش ہوجائے۔ مطلب یہ ہوا کہ انسان سے یہ مطالبہ نہیں ہے کہ وہ معصوم بن کر زندگی گزارے۔ جذبات اور خواہشوں سے مغلوب ہو کر گناہ کا مرتکب ہوجانا اس سے بعید نہیں ہے لیکن اللہ تعالیٰ کا یہ مطالبہ اس سے ضرور ہے کہ اس کی حس ایمانی اتنی بیدار ہے کہ کوئی گناہ اس کی زندگی کا اس طرح احاطہ نہ کرے کہ اس کے لیے اس سے پیچھا چھڑانا ہی ناممکن ہوجائے بلکہ جب بھی اس کا نفس اس کو ٹھوکر کھلائے وہ متنبہ ہوتے ہی توبہ کر کے اپنی اصلاح کرلے، جو لوگ اس طرح زندگی گزارتے ہیں اللہ تعالیٰ ان کے گناہوں کو معاف فرما دے گا اس کا دامن مغفرت بہت وسیع ہے۔ سورة نسا میں یہ مضمون اس طرح بیان ہوا ہے۔ (النساء : 17۔۔۔۔ 18) (اللہ پر صرف ان کی توبہ کی قبولیت کی ذمہ داری ہے جو جذبات سے مغلوب ہو کر برائی تو کر بیٹھتے ہیں پھر جلدی توبہ کرلیتے ہیں، ایسے لوگوں کی توبہ اللہ قبول کرلیتا ہے، اور اللہ علیم و حکیم ہے اور ایسے لوگوں کی توبہ، توبہ نہیں ہے جو برائی کرتے رہے یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کی موت سر پر آن کھڑی ہوئی تو وہ بولا کہ اب میں نے توبہ کی اور ان لوگوں کی بھی توبہ نہیں ہے جو کفر ہی کی حالت میں مرتے ہیں، یہی ہیں جن کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے۔) (کبیر الاثم والفواحش) میں اثم سے ماد وہ گناہ ہیں جن کا تعلق غضب حقوق اور ظلم وتعدی سے ہے اور فاحشۃ سے مراد کھلی ہوئی بےحیائیوں اور بد کاریاں ہیں۔ کبائر سے بچنے کی جو ہدایت فرمائی گئی ہے تو اس کے معنی یہ نہیں ہیں کہ صغائر پر کوئی گرفت نہیں ہے بلکہ اس میں حکمت، جیسا کہ اسکے محل میں ہم وضاحت کرچکے ہیں، یہ ہے کہ جو لوگ کبائر سے بچتے ہیں ان کی حس ایمانی اتنی قوی ہوجاتی ہے کہ وہ صغائر کے ارتکاب پر کبھی راضی نہیں ہوتے۔ جو ہزاروں کی امانت ادا کرتا ہے وہ کسی کے دھیلے پیسے میں خیانت کر کے خائن کہلانے پر کس طرح راضی ہوگا۔ (ان لوگوں کو تنبیہ جو ایمان و عمل کے بغیر جنت کے خواب دیکھ رہے ہیں)۔ یہ تنبیہ ہے ان لوگوں کو جو ہر قسم کی برائیوں اور بےحیائیوں میں تو آلودہ تھے لیکن اپنے مزعومہ شرکاء کی شفاعت، اپنے آباء و اجداد کی بزرگی اور اپنے حسب و نسب کی برتری کے بل پر جنت کے خواب دیکھ رہے تھے۔ ان کو آگاہ فرمایا گیا ہے کہ خدا کے ہاں کام آنے والی چیز ایمان اور عمل صالح ہے نہ کہ یہ جھوٹے سہارے۔ پیچھے ہم اشارہ کر آئے ہیں کہ قریش اور اہل کتاب سب اسی قسم کے کسی نہ کسی وہم میں مبتلا رہے ہیں۔ قریش کو دیویوں دیوتائوں کے سوا اپنے اولاد ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) اور پاسبان حرم ہونے پر بھی بڑا ناز تھا۔ ان کے اسی ناز پر ان کو (اجعلتم سقایۃ الحاج و عمارۃ المسجد الحرام) (التوبۃ : 9، 19) والی آیت میں تنبیہ فرمائی گئی کہ حاجیوں کو پانی پلا دینا اور خانہ کعبہ کی کچھ دیکھ بھال کردینا نیکی ہے لیکن یہ وہ نیکی نہیں ہے جو ایمان و عمل صالح کی قائم مقام اور تمہارے دوسرے جرائم کے ئے پردہ پوش بن سکے۔ اسی طرح اہل کتاب کو یہ غرہ تھا کہ وہ برگزیدہ امت اور ابراہیم و اسحاق (علیہما السلام) جیسے بزرگ نبیوں کی اولاد ہیں اس وجہ سے دوزخ کی آگ ان پر حرام ہے۔ دوزخ میں اول تو وہ ڈالے ہی نہیں جائیں گے اور اگر کسی کو ڈالا بھی گیا تو صرف چند دنوں کے لیے۔ ابدی عذاب ان کے لیے بہر حال نہیں ہے۔ یہ چیز صرف دوسری قوموں کے لیے مخصوص ہے۔ ان کے اسی غرور پر سیدنا مسیح ؑ نے ان کو سرزنش فرمائی کہ اولاد ابراہیم ؑ ہونے پر ناز نہ کرو، میرا رب چاہے گا تو ان پتھروں سے ابراہیم ؑ کے لیے اولاد پیدا کرے گا۔ انہی یہود کی پیروی ان کے بعد مسلمانوں نے کی اور اپنے کو امت مرحومہ قرار دے کر ایمان و عمل کی ساری ذمہ داریوں سے بری کرلیا۔ یہاں تک کہ ان کے اندر کتنے خاندان ہیں جن میں پیدا ہوجانا ہی جنت کی ضمانت ہے اور کتنے قبرستان ہیں جن میں دفن ہونا ہی ابدی بادشاہی کی بشارت ہے۔ اس سے بچت نہیں کہ پیدا ہونے والے اور مرنے والے کے عقائد و اعمال کیا رہے ! (ھو اعلم بکم اذا انشاکم من الارض واذا انتم اجنۃ فی بطون امھتکم فلا تزکوا انفسکم ھوا علم بمن اتقی) اس ذہن کے سارے ہی لوگوں کو مخاطب کر کے یہ تنبیہ فرمائی جا رہی ہے کہ اپنی پاک دامنی کی حکایت زیادہ نہ بڑھائو ! اور اپنے منہ میاں مٹھو نہ بنو۔ اللہ تعالیٰ تمہارے اس دور کو بھی سب سے زیادہ جانتا ہے۔ جب اس نے زمین سے تم کو پیدا کیا اور اس دور کو بھی جانتا ہے جب تم اپنی مائوں کے پیٹوں میں جنین کی صورت میں رہے۔ مطلب یہ ہے کہ پانی، کیچڑ اور مٹی سے وجود میں آنے والی مخلوق اور پھر ذلیل پانی کی ایک بوند سے رحم م اور کے اندر پرورش پانے والی ہستی کو یہ بات زیب نہیں دیتی کہ وہ بجائے خود اپنے وجود ہی کو بڑے سے بڑے مرتبہ کا مستحق سمجھ بیٹھے اور نیکی وتقویٰ کی راہ میں کسی جدوجہد کی ضرورت سے مستعفی ہوجائے۔ اس کا وجود ہر شخص جانتا ہے کہ نہایت حقیرعنصر سے ہوا ہے اور اس کی ابتدائی پرورش رحم مادر کی تنگنائے میں ہوئی ہے۔ اس وجہ سے مجرد وجود کی بنیاد پر تو اس کو کسی خاص شرف کے حاصل ہونے کی توقع نہیں کرنی چاہیے۔ اس کو شرف حاصل ہوسکتا ہے تو تقویٰ اور دین کی بنیاد پر ہوسکتا ہے اور اس چیز سے سب سے زیادہ واقف اللہ تعالیٰ ہی ہے۔ وہی اپنی میزان میں تول کر جس کو جس مرتبہ کا مستحق پائے گا اس پر سرفراز فرمائے گا۔ اس میزان کے فیصلہ سے پہلے کسی کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ اپنی عالی مقامی کی مناوی کرتا پھرے۔ یہ مضمون سورة معارج کی آیت 38۔ 39 میں بھی آئے گا وہاں انشاء اللہ اس کی مزید وضاحت ہوگی۔ (وحدہ الوجود کا عقیدہ رکھنے والوں کی برخود غلطی)۔ اس آیت میں انسان کے وجود کا جس حقارت آمیز انداز میں ذکر فرمایا گیا ہے اس پر بھی نگاہ رہے اور (فلا تزکوا انفسکم) میں اس کے دعوئے پاکی و برتری پر جو طنز ہے وہ بھی پیش نظر رہے۔ پھر غور کیجئے اپنے ان صوفیوں کے عقیدہ وحدت الوجود پر جو مدعی ہیں کہ انسان اللہ تعالیٰ ہی کا ایک جزو ہے۔ جو بالآخر اپنے کل میں مل جائے گا اور اس طرح قطرہ سمندر میں مل کر سمندر بن جائے گا۔ اگر انسان اللہ تعالیٰ ہی کا ایک جزو ہے تو کیا اللہ تعالیٰ نے العیاذ باللہ اپنے ہی وجود کے ایک جزو کا اس حقارت آمیز انداز میں ذکر کیا ہے۔ پھر اس بات پر بھی غور کیجئے کہ مجرد وجود کی بناء پر کسی دعوئے برتری و پاکی کو قرآن نے اپنے منہ میاں مٹھو بننے سے تعبیر فرمایا ہے لیکن صوفی حضرات بنکارتے ہیں کہ سبحانی سبحانی ما اعظم شانی (میں پاک ہوں، ہر عیب سے پاک ! کیا کہنے میں میری عظمت کے ! میری شان بڑی عظیم ہے ! !) کیا کوئی انسان جس کے اندر ایمان کی رمق بھی ہو اپنی ذات کے بارے میں یہ فرعونی دعویٰ کرسکتا ہے ؟ لیکن صوفیوں نے، چونکہ قرآن و حدیث کی جگہ باطینہ، روافض اور برہمنوں سے رہنمائی حاصل کر کے اس وجہ سے، ان فتنوں کو اسلام میں لا گھسایا اور آج کتنے کم سواد ہیں جو ان فقروں کو دہراتے ہیں حالانکہ وہ ان کے معنی سے بالکل بیخبر ہیں۔
Top