Tafseer-e-Madani - At-Tawba : 8
كَیْفَ وَ اِنْ یَّظْهَرُوْا عَلَیْكُمْ لَا یَرْقُبُوْا فِیْكُمْ اِلًّا وَّ لَا ذِمَّةً١ؕ یُرْضُوْنَكُمْ بِاَفْوَاهِهِمْ وَ تَاْبٰى قُلُوْبُهُمْ١ۚ وَ اَكْثَرُهُمْ فٰسِقُوْنَۚ
كَيْفَ : کیسے وَاِنْ : اور اگر يَّظْهَرُوْا : وہ غالب آجائیں عَلَيْكُمْ : تم پر لَا يَرْقُبُوْا : نہ لحاظ کریں فِيْكُمْ : تمہاری اِلًّا : قرابت وَّ : اور لَا ذِمَّةً : نہ عہد يُرْضُوْنَكُمْ : وہ تمہیں راضی کردیتے ہیں بِاَفْوَاهِهِمْ : اپنے منہ (جمع) سے وَتَاْبٰي : لیکن نہیں مانتے قُلُوْبُهُمْ : ان کے دل وَاَكْثَرُهُمْ : اور ان کے اکثر فٰسِقُوْنَ : نافرمان
کیسے (اعتبار کیا جاسکتا ہے ان پر) جب کہ ان کا حال یہ ہے کہ اگر وہ تم پر غلبہ پائیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی رشتہ داری کا لحاظ کریں نہ کسی عہد کا، وہ تم کو راضی کرتے ہیں اپنے مونہوں سے، مگر انکار کرتے ہیں ان کے دل، اور ان کی اکثریت بدکاروں کی ہے،1
19 معاشرتی استحکام کی دو اہم بنیادوں کا ذکر وبیان : سو اس سے واضح فرما دیا گیا کہ رشتہ داری اور عہد و پیمان کی پابندی معاشرتی استحکام کی دو اہم بنیادیں ہیں۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ ان لوگوں کا حال یہ ہے کہ اگر یہ تم پر کہیں غلبہ پالیں تو تمہارے بارے میں نہ کسی رشتہ داری کا پاس ولحاظ کریں اور نہ کسی عہد و پیمان کا۔ سو یہ ایسے بےوفا اور دھوکہ باز ہیں کہ نہ کسی رشتہ داری کا لحاظ کرتے ہیں جو کہ دو گروہوں اور فریقوں کے درمیان ایک قدرتی اور غیر اختیاری رابطہ اور بندھن ہوتا ہے اور نہ ہی یہ کسی ایسے عہد و پیمان کا پاس ولحاظ کرتے ہیں جو کہ دو طرفوں کے درمیان اپنے ارادہ و اختیار سے عائد کردہ ہوتا ہے۔ سو رشتہ داری اور عہد کا التنرام اور اس کی پابندی و پاسداری دو ایسی اہم اور عظیم الشان بنیادیں ہیں جن پر بڑی حد تک معاشرتی امن و استحکام موقوف ہے۔ مگر یہ ظالم لوگ اپنے قول وقرار، عمل و کردار اور گریز و فرار سے انہی دو بنیادوں کو مٹا کر معاشرتی نظام اور اصلاح و استحکام کو تباہ کردینا چاہتے ہیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم ۔ 20 منکرین و معاندین کی منافقانہ پالیسی کا ذکر وبیان : سو ان لوگوں کی منافقانہ پالیسی کے ذکر وبیان کے سلسلے میں واضح فرما دیا گیا کہ ان کا ظاہر کچھ اور باطن کچھ اور۔ چناچہ ارشاد فرمایا گیا کہ یہ لوگ تم کو اپنے مونہوں سے راضی کرنے کی کوشش کرتے ہیں جبکہ ان کے دل اس کا انکار کرتے ہیں۔ اور ان کی اکثریت فاسقوں اور بدکاروں کی ہے۔ اور ان کا یہ رویہ اس لیے ہے کہ یہ لوگ تم لوگوں کو راضی کرکے تم سے دنیاوی مفاد حاصل کرسکیں کہ ان کے سامنے چند روزہ دنیاوی زندگی اور اس کے وقتی فوائد و منافع ہی سب کچھ ہیں۔ یہ اسی کے لئے جیتے اور اسی کے لئے مرتے ہیں۔ اسی کے متاع فانی اور حطام زائل کو سمیٹنے ہی کو یہ لوگ سب کچھ سمجھتے ہیں، جیسا کہ ابنائے دنیا کا ہمیشہ یہی حال رہا۔ کل بھی یہی تھا اور آج بھی یہی ہے۔ سو ایسے لوگوں کا ایمان و یقین اور عقیدئہ و عمل سب کچھ اسی محور کے گرد گھومتا ہے۔ صدق و اخلاص کی متاع گرانمایہ کی انکے یہاں کوئی قدر و قیمت نہیں ہوتی۔ اس لیے ایسے لوگ اپنے مونہوں کی باتوں سے تم لوگوں کو خوش کرنا چاہتے ہیں مگر ان کے دل اس کے انکاری ہوتے ہیں۔ مگر اس طرح یہ لوگ خود اپنے آپ ہی کو دھوکہ دے رہے ہیں کہ ان کی باتیں اللہ سے تو نہیں چھپ سکتیں ۔ والعیاذ باللہ العظیم -
Top