Madarik-ut-Tanzil - An-Nahl : 112
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
وَضَرَبَ اللّٰهُ : اور بیان کی اللہ نے مَثَلًا : ایک مثال قَرْيَةً : ایک بستی كَانَتْ : وہ تھی اٰمِنَةً : بےخوف مُّطْمَئِنَّةً : مطمئن يَّاْتِيْهَا : اس کے پاس آتا تھا رِزْقُهَا : اس کا رزق رَغَدًا : بافراغت مِّنْ : سے كُلِّ مَكَانٍ : ہر جگہ فَكَفَرَتْ : پھر اس نے ناشکری کی بِاَنْعُمِ : نعمتوں سے اللّٰهِ : اللہ فَاَذَاقَهَا : تو چکھایا اس کو اللّٰهُ : اللہ لِبَاسَ : لباس الْجُوْعِ : بھوک وَالْخَوْفِ : اور خوف بِمَا : اس کے بدلے جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور خدا ایک بستی کی مثال بیان فرماتا ہے کہ (ہر طرح) امن چین سے بستی تھی ہر طرف سے رزق بافراغت چلا آتا تھا مگر ان لوگوں نے خدا کی نعمتوں کی ناشکری کی تو خدا نے ان کے اعمال کے سبب ان کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا کر (ناشکری کا) مزہ چکھا دیا۔
نعمتیں اور اہل مکہ کی ناشکری : 112: وَضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلاً قَرْیَۃً (اللہ تعالیٰ نے ایک بستی کی مثال بیان کی) اللہ تعالیٰ نے اس بستی کو ان تمام لوگوں کیلئے مثال بنادیا جن پر اللہ تعالیٰ نے انعام فرمایا ہو۔ اور نعمتوں نے ان کو مغرور کردیا جس سے وہ کفر میں مبتلا ہوگئے۔ اور اللہ تعالیٰ سے منہ پھیرلیا۔ جس کے نتیجہ میں اللہ تعالیٰ نے ان پر اپنا عذاب نازل کردیا۔ نمبر 2۔ یہ بھی درست ہے کہ اس صفت و حالت والی کوئی بستی و شہر مراد لیاجائے۔ نمبر 3۔ پہلے زمانہ کی کوئی بستی ہو جس کا یہ حال ہو۔ اس کو اللہ تعالیٰ نے اہل مکہ کیلئے بطور مثال بیان کردیا ہو تاکہ یہ اس سے عبرت حاصل کریں۔ کَانَتْ اٰمِنَۃً (وہ امن والی تھی) قتل اور قیدی بننے سے مُّطْمَئِنَّۃً (اطمینان والی) کوئی خوف اس کو پریشان کرنے والا نہ تھا۔ کیونکہ اطمینان امن سے ہوتا ہے اور خوف سے بےچینی اور بےاطمینانی ہوتی ہے۔ یَّاْ تِیْھَا رِزْقُھَا رَغَدًا (اس کا رزق بافراغت ان کے ہاں پہنچتا ہو) رغدًا بمعنی وسعت کے ساتھ مِّنْ کُلِّ مَکَانٍ (ہر طرف سے) ہر شہر سے فَکَفَرَتْ (پس اس نے کفر کیا) وہاں کے رہنے والوں نے بِاَنْعُمِ اللّٰہِ (اللہ تعالیٰ کے انعامات کے ساتھ) انعم جمع ہے نمبر 1۔ نعمۃ کی۔ جبکہ تاء کو جمع میں چھوڑ دیا جائے۔ مثلاً درع وأدرع نمبر 2۔ نعم کی جیسے بؤس وابؤس۔ فَاَذَا قَھَا اللّٰہُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ بِمَا کَانُوْا یَصنَعُوْنَ (پس اللہ تعالیٰ نے اس کو بھوک اور خوف کا لباس پہنا دیا ان کی حرکات کے سبب) الاذاقۃ واللباس یہ دونوں استعارے ہیں اذاقہ مستعارہ کو لباس مستعار کیلئے استعمال کیا۔ اور اس کے صحیح ہونے کی وجہ یہ ہے اذاقہ ان کے ہاں حقیقت کے قائم مقام ہے کیونکہ بلاء اور مصائب میں یہ شائع و ذائع ہے۔ اور لوگوں کو پیش آتی رہتی ہے۔ جس پر لوگ کہتے ہیں ذاق فلان البؤس والضر واذاقہ العذاب۔ اس میں ضرر والم جس کا ادراک ہوسکتا ہے کڑ وے، کسیلے سے جس کا ادراک ہوسکتا ہے تشبیہ دی ہے۔ لباس سے تشبیہ اس لئے دی ہے کہ لباس پہننے والے کو ڈھانپ لیتا ہے۔ جس طرح کہ انسان پر غشی آئے تو وہ اس کے حواس کو ڈھانپ لیتی ہے اور بعض حوادث اس پر اس طرح سوار ہوجاتے ہیں جیسے لباس جسم پر۔ باقی رہی یہ بات کہ جوع و خوف کے لباس پر اذاقہ کا واقع کرنا اس لئے ہے جب وہ خوف و جوع میں سے جو چیز ڈھانپ لے جب اس کا اطلاق اس پر آتا ہے تو چکھنے کا اطلاق بھی اس پر درست ہے۔ گویا اس طرح کہا گیا : فَاَذَا قَہُمْ مَاغَشِیَہُمْ مِّنَ الْجُوْعِ وَالْخَوْفِ (پس ان کو چکھائی وہ بھوک اور خوف جس نے ان کو آکر ڈھانپ لیا تھا) دنیا میں جس طرح موجود نعمتیں جنت کے مقابلہ میں چکھنے کی چیزیں ہیں۔ بالکل اسی طرح جہنم کے مقابلہ میں دنیا کی سزائیں بھی چکھنے کے مترادف ہیں اصل سزا تو بہت بڑی ہے۔ (مترجم)
Top