Al-Quran-al-Kareem - Al-Hadid : 28
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ اٰمِنُوْا بِرَسُوْلِهٖ یُؤْتِكُمْ كِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِهٖ وَ یَجْعَلْ لَّكُمْ نُوْرًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ١ؕ وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌۚۙ
يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوا : اے لوگو ! جو ایمان لائے ہو اتَّقُوا اللّٰهَ : اللہ سے ڈرو وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِرَسُوْلِهٖ : اس کے رسول پر يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ : دے گا تم کو دوہرا حصہ مِنْ رَّحْمَتِهٖ : اپنی رحمت میں سے وَيَجْعَلْ لَّكُمْ : اور بخشے گا تم کو۔ بنا دے گا تمہارے لیے نُوْرًا : ایک نور تَمْشُوْنَ بِهٖ : تم چلو گے ساتھ اس کے وَيَغْفِرْ لَكُمْ ۭ : اور بخش دے گا تم کو وَاللّٰهُ : اور اللہ غَفُوْرٌ رَّحِيْمٌ : غفور رحیم ہے
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اللہ سے ڈرو اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، وہ تمہیں اپنی رحمت سے دوہرا حصہ دے گا اور تمہارے لیے ایسی روشنی کر دے گا جس کے ذریعے تم چلتے رہو گے اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت رحم والا ہے۔
1۔ یٰٓاَیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ۔۔۔: مفسرین نے اس آیت کی تفسیر دو طرح سے کی ہے ، ایک یہ کہ ”یا ایھا الدین امنوا“ کے الفاظ کے مخاطب اہل کتاب ہیں جو اس سے پہلے اپنے نبی پر ایمان کا دعویٰ رکھتے تھے ، انہیں حکم دیا جا رہا ہے کہ اللہ سے ڈر جاؤ اور اس کے رسول محمد ﷺ پر ایمان لے آؤ ، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت سے دوہرا حصہ عطا فرمائے گا۔ اس کی تائید سورة ٔ قصص کی آیات (52 تا 54) سے ہوتی ہے اور اس حدیث سے بھی جو ابو موسیٰ اشعری ؓ سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(ثلاثۃ لھم اجران رجل من اھل الکتاب امن بینہ ، وامن بمحمد ﷺ والعبد المملوک اذا ادی حق اللہ وحق موالیہ ، ورجل کانت عندہٗ امۃ یصلوھا فادیھا ، فاحسن تادیبھا وعلمھا فاحسن تعلیمھا ثم اعتقھا فتزوجھا فلہ اجران) (بخاری ، العلم ، باب تعلیم الرجل امنہ واھلہ ، 97)”تین آدمی ایسے ہیں کہ ان کے لیے دو اجر ہیں ، ایک اہل کتاب میں سے کوئی آدمی جو اپنے نبی پر ایمان لایا اور محمد ﷺ پر ایمان لایا اور ایک وہ غلام جو کسی کی ملکیت میں ہو ، جب وہ اللہ کا حق ادا کرے اور اپنے مالکوں کا حق ادا کرے اور ایک وہ آدمی جس کے پاس ایک لونڈی تھی ، وہ اس سے صحبت کرتا تھا ، تو اس نے اسے ادب سکھایا اور اچھی طرح ادب سکھایا اور اسے تعلیم دی اور اچھی طرح تعلیم دی ، پھر اسے آزاد کردیا اور اس سے نکاح کرلیا ، تو اس کے لیے بھی دو اجر ہیں“۔ اس تفسیر میں جو بات بیان ہوئی ہے وہ اپنی جگہ درست ہے ، مگر یہاں ”یایھا الذین امنوا“ سے اہل کتاب میں سے مسلمان ہونے والے مرد لینا سیاق کے خلاف ہے ، کیونکہ شروع سے آخر تک خطاب ان لوگوں سے ہے جو رسول اللہ ﷺ پر ایمان لائے ، انہی کو اپنی ایمان میں اخلاص پیدا کرنے اور اللہ کی راہ میں قتال اور خرچ کا حکم آرہا ہے۔ اس آیت میں بھی انہیں اللہ سے ڈرنے اور اس کے رسول پر کما حقہ ایمان لانے کا حکم اور اس کی جزاء کے طور پر اپنی نعمت کا دوہرا حصہ اور نو ر عظیم عطاء کرنے کی بشارت کا ذکر ہے۔ اس لیے صحیح تفسیران حضرت کی ہے جو یہ کہتے ہیں کہ ”یایھا الذین امنوا“ کے ساتھ خطاب ان لوگوں سے ہے جو محمد ﷺ پر ایمان لائے ، خواہ وہ اہل کتاب میں سے اسلام لائے ہوں یا مشرکین میں سے ، یا پیدا ہی اسلام پر ہوئے ہوں ، ان سب سے کہا جارہا ہے کہ صرف زبان سے ایمان کے اقرار اور دعویٰ پر اکتفا نہ کرو ، بلکہ سچے دل کے ساتھ ایمان لاؤ ، اس کا حق ادا کرو اور اس کے تقاضے پورے کرو، تو اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمت کا دوسرا حصہ عطاء کرے گا۔ اس دوہرے حصے سے مراد ہماری اس امت کی خصوصیت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے لیے محض اپنے فضل سے پہلی امتوں کی بہ نسبت دوسرے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔ نبی ﷺ نے یہ بات ایک مثال کے ساتھ واضح فرمائی ، آپ ﷺ نے فرمایا :(مثلکم ومثل اھل الکتابین کمثل رجل استاجر اجراء ، فقال من یعمل لی من غدوۃ الی نصف النھار علی قیراط ؟ فعملت الیھود ، ثم قال من یعمل لی من نصف النھار الی صلاۃ العصر علی قیراط ؟ فعملتالناریٰ ثم قال من یعمل لی من العصر الی ان تغیب الشمس علی قیراطین ؟ قانتم ھم ، فغضب النھود، والنصاری ، فقالو ما لنا اکثر عملاً ، واقل عطاء ؟ قال ھل نقصتکم من حقکم ؟ قالو الا قال فدلک فصی اوتیہ من اشائ) (بخاری ، الاحارۃ ، باب الاحارۃ الی نصف النھار : 2268، 3459، عن ابن عمر ؓ)”تمہاری مثال اور دونوں کتابوں (تورات ون انجیل) والوں کی مثال اس آدمی کی مثال کی طرح ہے جس نے کئی مزدوروں کو اجرت پر رکھا اور کہا : ”کون ہے جو میرے لیے صبح سے نصف النہار تک ایک قیراط پر کام کرے گا ؟“ تو نصاریٰ نے کام کیا۔ پھر اس نے کہا :”کون ہے جو میرے لیے عصر سے سورج غروب ہونے تک دو قیراط پر کام کرے گا“۔ تو تم وہ لوگ ہو۔ اس پر یہود و نصاریٰ ناراض ہوگئے اور کہنے لگے :”ہمیں کیا ہے کہ ہم نے کام زیادہ کیا اور اجرت کم ملی ؟“ اس نے کہا : ”کیا میں نے تمہارے حق میں کوئی کمی کی ہے ؟”انہوں نے کہا :”نہیں !“ اس نے کہا :”پھر یہ میرا افضل ہے ، جسے چاہتا ہوں دیتا ہوں“۔ 2۔ ویجعل لکم نورا تمثون بہ۔۔۔: یعنی اللہ تعالیٰ سے ڈرنے اور رسول اللہ ﷺ پر ایمان لانے کی بدولت اللہ تعالیٰ تمہیں کتاب و سنت کی صورت میں وحی الٰہی کا ایسا عظیم نور عطاء کرے گا جس کے ذریعے سے تم دنیا و آخرت میں ہر جگہ آسانی کے ساتھ چلتے رہو گے ، کسی مسئلے میں تمہیں کوئی الجھن یا اندھیرا پیش نہیں آئے گا ، جیسا کہ فرمایا :(اَﷲُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُخْرِجُہُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط) (البقرہ : 257)”اللہ ان لوگوں کا دوست ہے جو ایمان لائے ، وہ انہیں اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لاتا ہے“۔ اور قیامت کے دن کے اندھیروں میں وہ نور عطا کرے گا جس میں چلتے ہوتے تم جنت تک پہنچ جاؤ گے ، جس کا ذکر اس سے پہلے ”یوم تری المومنین والمومنت یسعی نور ھم بین ایدیھم وبا یمانھم“ میں گزر چکا ہے اور تمہیں بخش دے گا اور اللہ غفو ر و رحیم ہے۔
Top