Madarik-ut-Tanzil - Al-Israa : 7
اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِكُمْ١۫ وَ اِنْ اَسَاْتُمْ فَلَهَا١ؕ فَاِذَا جَآءَ وَعْدُ الْاٰخِرَةِ لِیَسُوْٓءٗا وُجُوْهَكُمْ وَ لِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ كَمَا دَخَلُوْهُ اَوَّلَ مَرَّةٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَا عَلَوْا تَتْبِیْرًا
اِنْ : اگر اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی اَحْسَنْتُمْ : تم نے بھلائی کی لِاَنْفُسِكُمْ : اپنی جانوں کے لیے وَاِنْ : اور اگر اَسَاْتُمْ : تم نے برائی کی فَلَهَا : تو ان کے لیے فَاِذَا : پھر جب جَآءَ : آیا وَعْدُ الْاٰخِرَةِ : دوسرا وعدہ لِيَسُوْٓءٗا : کہ وہ بگاڑ دیں وُجُوْهَكُمْ : تمہاری چہرے وَلِيَدْخُلُوا : اور وہ گھس جائیں گے الْمَسْجِدَ : مسجد كَمَا : جیسے دَخَلُوْهُ : وہ گھسے اس میں اَوَّلَ مَرَّةٍ : پہلی بار وَّلِيُتَبِّرُوْا : اور برباد کر ڈالیں مَا عَلَوْا : جہاں غلبہ پائیں وہ تَتْبِيْرًا : پوری طرح برباد
اگر تم نیکو کاری کرو گے تو اپنی جانوں کے لئے کرو گے اور اگر اعمال بد کرو گے تو (ان کا) وبال بھی تمہاری جانوں پر ہوگا، پھر جب دوسرے وعدے کا وقت آیا (تو ہم نے پھر اپنے بندے بھیجے) تاکہ تمہارے چہروں کو بگاڑ دیں اور جس طرح پہلی دفعہ مسجد (بیت المقدس) میں داخل ہوگئے تھے اسی طرح پھر اس میں داخل ہوجائیں اور جس چیز پر غلبہ پائیں اسے تباہ کردیں
7: اِنْ اَحْسَنْتُمْ اَحْسَنْتُمْ لِاَنْفُسِکُمْ وَاِنْ اَسَاْتُمْ فَلَھَا (اگر تم اچھے عمل کروگے تو اس کا فائدہ تمہارے ہی لئے ہوگا۔ اور اگر تم برے کام کروگے تو بھی اپنے ہی لئے کروگے) ایک قول نمبر 1۔ یہ ہے کہ لام علیٰ کے معنی میں ہے جیسا کہ اس آیت میں ہے : وَعَلَیْہَا مَا اکْتَسَبَتْ ] البقرہ : 286[ صحیح قول یہ ہے کہ وہ اپنے معنی میں ہے۔ کیونکہ اختصاص کیلئے ہے عامل اپنے عمل کے بدلے کے ساتھ خاص ہے خواہ وہ اچھا ہو یا برا۔ یعنی احسان، برائی دونوں تمہارے نفوس کے ساتھ خاص ہیں۔ انکا نفع و نقصان غیر کی طرف متعدی نہیں ہوسکتا۔ حضرت علی ؓ فرماتے کہ نہ احسان میں نے کسی کے ساتھ کیا اور نہ زیادتی ( مگر وہ اپنے نفس کے ساتھ کی) پھر آپ نے یہ آیت پڑی : ان احسنتم الایۃ۔ دوسرا موقعہ سزا : فَاِذَا جَآئَ وَعْدُ الْاٰخِرَۃِ (جب دوسرے وعدے کا وقت آیا) دوسرا وعدہ آیا۔ ہم نے ان کو مقر کردیا۔ لِیَسُوْئٗ یعنی یہ لوگ وُجُوْھَکُمْ (تاکہ وہ تمہارے چہروں کو بگاڑیں) اور بعثناؔ کو حذف کردیا کیونکہ اوّلاً اس کے تذکرہ کی وجہ سے اس پر دلالت موجود ہے۔ یعنی لیجعلوھا بادیۃ ٰاثار المساءہ الکابۃ فیھا تاکہ ان کو ایسا بنادیں کہ جس میں برائی اور اکتاہٹ کے آثار ظاہر و نمایاں ہوں جیسا کہ دوسرے مقام پر فرمایا : سیئت وجوہ الذین کفروا۔] الملک : 27 [ قراءت : یسوء شامی ‘ حمزہ ابوبکر نے پڑھا ہے۔ اس میں ضمیر اللہ تعالیٰ کی طرف راجع ہوگی نمبر 2۔ وعدے کی طرف نمبر 3۔ بعث کی طرف۔ علی نے لنسوءؔ پڑھا ہے۔ وَلِیَدْخُلُوا الْمَسْجِدَ (تاکہ وہ مسجد میں گھس جائیں) اَلْمَسْجِدَ سے بیت المقدس مراد ہے۔ کَمَا دَخَلُوْہُ اَوَّلَ مَرَّۃٍ وَّ لِیُتَبِّرُوْا مَاعَلَوْا تَتْبِیْرًا (جس طرح پہلی مرتبہ گھس گئے اور اس لئے کہ جس چیز پر وہ غلبہ پالیں اس کو برباد کرڈالیں) مَاعَلَوْایہ لِیُتَبِّرُوْا کا مفعول ہے تاکہ وہ ہلاک کر ڈالیں ہر اس چیز کو جس پر غالب آئیں اور مسلط ہوں۔ نمبر 2۔ غلبہ کا زمانہ اور مدت مراد ہے۔
Top