Madarik-ut-Tanzil - Al-Kahf : 107
اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ كَانَتْ لَهُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًاۙ
اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا : جو لوگ ایمان لائے وَ : اور عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ : انہوں نے نیک عمل کیے كَانَتْ : امین لَهُمْ : ان کے لیے جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ : فردوس کے باغات نُزُلًا : ضیافت
جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کیے ان کے لئے بہشت کے باغ مہمانی ہوں گے
مومن اور فردوس کی ضیافت : 107، 108: اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ کَانَتْ لَھُمْ جَنّٰتُ الْفِرْدَوْسِ نُزُلًا خٰلِدِیْنَ فِیْھَا لَایَبْغُوْنَ عَنْھَا حِوَلًا (بیشک جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے نیک کام کئے ان کی مہمانی کیلئے فردوس کے باغ ہونگے وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے اور ان سے ہٹنا نہ چاہیں گے) خلِدِیْنَ فِیْھَا یہ حال ہے اور حِوَلًا کا معنی کسی دوسرے کی طرف منتقل ہونا یعنی اس عطیے پر وہ خوش ہو کر ایسا نہ چاہیں گے۔ عرب کے ہاں محاورہ ہے : حَال مِنْ مَکَانِہٖ حِوَلًا یعنی اس پر کوئی اضافہ نہیں یہاں تک کہ ان کے نفسوں نے ان سے تنازع کیا کہ وہ اپنی اغراض اور تمنائوں کو جمع کرلیں۔ یہ انتہائی تعریف ہے کیونکہ انسان دنیا میں جس نعمت میں بھی ہو وہ اس سے بہتر کا طالب اور خواہش مند ہوتا ہے۔ یا مراد اس سے پھرنے کی نفی اور خلود کی تاکید ہے۔
Top