Madarik-ut-Tanzil - Al-Baqara : 41
وَ اٰمِنُوْا بِمَاۤ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَكُمْ وَ لَا تَكُوْنُوْۤا اَوَّلَ كَافِرٍۭ بِهٖ١۪ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا١٘ وَّ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ
وَاٰمِنُوْا : اور ایمان لاؤ بِمَا : اس پر جو اَنْزَلْتُ : میں نے نازل کیا مُصَدِّقًا : تصدیق کرنے والا لِمَا : اس کی جو مَعَكُمْ : تمہارے پاس وَلَا تَكُوْنُوْا : اور نہ ہوجاؤ اَوَّلَ کَافِرٍ : پہلے کافر بِهٖ : اس کے وَلَا تَشْتَرُوْا : اور عوض نہ لو بِآيَاتِیْ : میری آیات کے ثَمَنًا : قیمت قَلِیْلًا : تھوڑی وَاِيَّايَ : اور مجھ ہی سے فَاتَّقُوْنِ : ڈرو
اور جو کتاب میں نے (اپنے رسول محمد ﷺ پر) نازل کی ہے جو تمہاری کتاب (تورات) کو سچا کہتی ہے اس پر ایمان لاؤ اور اس سے منکر اول نہ بنو اور میری آیتوں میں (تحریف کر کے) ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (یعنی دنیاوی منفعت) نہ حاصل کرو اور مجھی سے خوف رکھو
وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ : (اور خاص مجھ ہی سے ڈرو) تم میرے وعدے کو نہ توڑو۔ جیسے تم کہو۔ زیداً رھبتہ۔ یہ خصوصیت کا فائدہ دینے میں ایاک نعبد سورة الفاتحہ سے بڑھ کر ہے نحوی تحقیق : نحو : ایّای فعل مضمر کی وجہ سے منصوب ہے اس کا ما بعد اس پر دلالت کرتا ہے تقدیر عبارت یہ ہے۔ فارھبوا ایای فارھبون۔ اول کو حذف کرلیا کیونکہ دوسرا اس پر دلالت کرتا ہے۔ یہ فارھبون کی وجہ سے منصوب نہیں کیونکہ اس نے تو اپنا مفعول لے لیا ہے اور وہ یاء محذوفہ ہے نون کا مک سورة ونا یہ یاء کی دلیل ہے جس طرح کہ زید کا نصب اس مثال میں زید افاضربہ۔ زیدا اضرب جو ظاہر ہے اس کی وجہ سے منصوب نہیں ہے بلکہ محذوف کی بناء پر منصوب ہے۔ وَاٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ : (اور تم ایمان لائو جو میں نے اتارا) یعنی قرآن مُصَدِّقًا : (تصدیق کرنے والا) ھا محذوفہ سے حال مؤکد ہے گویا عبارت اس طرح ہوئی انزلتہ مصدقًا لِّمَا مَعَکُمْ : (اس چیز کے لیے جو تمہارے پاس ہے) یعنی تو رات جو کہ عبادت اور توحید اور نبوت اور محمد ﷺ کے معاملے میں مصدق ہے۔ ایک تعریض : وَلَا تَـکُوْنُوْااَوَّلَ کَافِرٍمبِہٖ : (اور مت بنو اس کے پہلے منکر) یعنی پہلے انکاری اس کے یا پہلا گروہ اس کا انکار کرنے والا یا پہلی جماعت اس کا انکار کرنے والی یا تم میں سے ہر ایک اس کا پہلا منکر نہ بنے۔ اس میں ان پر تعریض کی گئی کہ ان پر تو لازم تھا کہ وہ اس پر تو پہلے ایمان لانے والے بنتے کیونکہ وہ آپ کو آپ کی صفات کے ساتھ پہچاننے والے تھے۔ بہٖ میں ضمیر قرآن کی طرف لوٹتی ہے۔ وَلَا تَشْتَرُوْا : ( اور نہ بدلے میں لو) بِاٰ یٰتـِیْ : (میری آیات کے) یعنی میری آیات میں تبدیلی و تحریف کر کے ثمن قلیل کی مراد : ثَمَنًا قَلِیْلًا : (تھوڑی قیمت) نمبر 1: حضرت حسن (رح) کہتے ہیں۔ وہ اپنے سامان سمیت پوری دنیا ہے۔ نمبر 2: یہ بھی کہا گیا وہ سرداری مراد ہے جو انہیں اپنی قوم میں حاصل تھی۔ رسول اللہ ﷺ کی اتباع سے جس کے چلے جانے کا ان کو خطرہ ہوا۔ وَاِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ : (مجھ ہی سے ڈرو) قراءت : تمام قراء کے ہاں پس خافونی، فارھبونی، فاتقونی ہر دو حالتوں میں یاء کے ساتھ ہیں قاری یعقوب (رح) کے نزدیک یہی حکم ہر یاء کا ہے۔ جو لکھنے میں حذف ہو۔
Top