Madarik-ut-Tanzil - Al-Anbiyaa : 45
قُلْ اِنَّمَاۤ اُنْذِرُكُمْ بِالْوَحْیِ١ۖ٘ وَ لَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآءَ اِذَا مَا یُنْذَرُوْنَ
قُلْ : فرما دیں اِنَّمَآ : اس کے سوا نہیں کہ اُنْذِرُكُمْ : میں تمہیں ڈراتا ہوں بِالْوَحْيِ : وحی سے وَ : اور لَا يَسْمَعُ : نہیں سنتے ہیں الصُّمُّ : بہرے الدُّعَآءَ : پکار اِذَا : جب مَا : بھی يُنْذَرُوْنَ : انہیں ڈرایا جائے
کہ دو کہ میں تم کو حکم خدا کے مطابق نصیحت کرتا ہوں اور بہروں کو جب نصیحت کی جائے تو وہ پکار کو سنتے ہی نہیں
45: قُلْ اِنَّمَآ اُنْذِرُکُمْ بِالْوَحْیِ (کہہ دیں میں تم کو وحی کے ذریعہ ڈرا رہا ہوں) میں قرآن کے ذریعہ تمہیں عذاب سے ڈرا رہا ہوں۔ ولَا یَسْمَعُ الصُّمُّ الدُّعَآئَ (اور بہرے پکار کو نہیں سنتے) ۔ قراءت : یاءؔ مفتوح اور میم بھی مفتوح اور الصُّم مرفوع پڑھا گیا۔ اور شامی اور علی نے لا تسمع الصُّمَ پڑھا ہے۔ اس میں خطاب آپ ﷺ کو ہے۔ اِذَامَایُنْذَرُوْنَ (جبکہ ان کو ڈرایا جاتا ہے) خوف دلایا جاتا ہے۔ الصمؔ کی الف لام عہد خارجی کا ہے۔ اس سے موجود ین مراد تھے۔ جن کو براہ رست ڈرایا گیا اور اصل اس طرح کلام ہے ولا یسمعون اذا ماینذرون پس ظاہر کو مضمر کی جگہ لائے کیونکہ ان کے بہرے پن اور کانوں کے بند کرلینے پر دلالت موجود ہے جب بھی ان کو ڈرایا جاتا ہے تو یہ اس سے کوئی تاثر ہی نہیں لیتے۔
Top