Madarik-ut-Tanzil - Al-Furqaan : 19
فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ بِمَا تَقُوْلُوْنَ١ۙ فَمَا تَسْتَطِیْعُوْنَ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًا١ۚ وَ مَنْ یَّظْلِمْ مِّنْكُمْ نُذِقْهُ عَذَابًا كَبِیْرًا
فَقَدْ كَذَّبُوْكُمْ : پس انہوں نے تمہیں جھٹلا دیا بِمَا تَقُوْلُوْنَ : وہ جو تم کہتے تھے (تمہاری بات) فَمَا تَسْتَطِيْعُوْنَ : پس اب تم نہیں کرسکتے ہو صَرْفًا : پھیرنا وَّلَا نَصْرًا : اور نہ مدد کرنا وَمَنْ : اور جو يَّظْلِمْ : وہ ظلم کرے گا مِّنْكُمْ : تم میں سے نُذِقْهُ : ہم چکھائیں گے اسے عَذَابًا : عذاب كَبِيْرًا : بڑا
تو (کافرو) انہوں نے تو تم کو تمہاری بات سے جھٹلا دیا پس (اب) تم (عذاب) نہ پھیر سکتے ہو (کسی سے) مدد لے سکتے ہو اور جو شخص تم میں سے ظلم کرے گا ہم کو اس کو بڑے عذاب کا مزہ چکھائیں گے
غیبت سے تخاطب : 19: پھر کفار سے مخاطب کر کے اور غیبت سے اعراض کرتے ہوئے کہا جائے گا : فَقَدْ کَذَّبُوْکُمْ (انہوں نے تمہاری بات کو جھٹلادیا) یہ مفاجاتی انداز کلام احتجاج والزام کیلئے بہت مناسب ہے اور خاصکر جبکہ التفات کو اس کے ساتھ ملا دیا اور قول کو حذف کردیا اس کی نظیر اس آیت میں موجود ہے : یا اھل الکتاب قد جاء کم رسولنا یبین لکم علی فترۃ من الرسل الی قولہ ٖ فقد جاء کم بشیر و نذیر ] المائدہ : 19[ اور شاعر کا یہ قول ؎ قالو اخرسان اقصیٰ ما یراد بنا ٭ ثم القفول فقد جئنا خراسانا ” انہوں نے کہا ہمارا انتہائی مقصود تو خراسان ہے وہ دور ہے پھر واپس لوٹنا ہے۔ لیجئے، خراسان تو آگیا “۔ بِمَا تَقُوْلُوْنَ (جو کچھ تم کہتے تھے) تمہاری بات جو ان کے متعلق تم کرتے تھے کہ وہ معبود ہیں۔ اس صورت میں باء اسی طرح ہے جیسا اس ارشاد میں : بل کذبوا بالحق ] ق : 5[ اور جار، مجرور، ضمیر کا بدل ہیں گویا کہ اس طرح فرمایا گیا ہے : فقد کذبوا بما تقولون یعنی تمہاری یہ بات جو تم کہتے تھے کہ یہ ہمارے معبود ہیں یا ہمیں گمراہ کرنے والے ہیں۔ خود انہوں نے تکذیب کردی۔ قراءت : قنبل نے یاء سے پڑھا اور اس کا معنی انہوں نے تمہاری تکذیب خود اپنے قول سے کردی جو کہ : سبحانک ماکان ینبغی لنا ان نتخذ من دونک من اولیاء ] الفرقان : 18۔ اور باءؔ اس صورت میں استعانت کیلئے جیسے کتبت بالقلم میں ہو۔ فَمَا تَسْتَطِیعُوْنَ صَرْفًا وَّ لَا نَصْرًا (تم نہ عذاب لوٹانے کی طاقت رکھتے ہو نہ مدد کی) تمہارے معبود طاقت نہیں رکھتے کہ وہ تم سے عذاب کو پھیر دیں اور ہٹا دیں۔ نمبر 2۔ تمہاری مدد کریں۔ قراءت : حفص نے تاءؔ سے پڑھا ہے۔ مطلب یہ ہے اے کفار تم اپنے سے عذاب کو پھیرنے کی طاقت نہیں رکھتے اور نہ ہی تم اپنی مدد کرسکتے ہو۔ پھر علی العموم مکلفین کو خطاب کرتے ہوئے فرمایا : وَمَنْ یَّظْلِمْ مِّنْکُمْ (جو شخص تم میں سے ظلم کرے گا) یظلم، یشرک کے معنی میں ہے۔ کیونکہ ظلمؔ وضع الشئی فی غیر موضعہٖ کو کہتے ہیں اور جس نے مخلوق کو اس کے خالق کا شریک بناڈالا تو اس نے یقینا ظلم کیا۔ اس کی تائید اللہ تعالیٰ کے اس ارشاد میں ہے : ان الشرک لظلم عظیم ] لقمان : 13[ نُذِقْہُ عَذَابًا کَبِیْرًا (ہم اس کو بڑا عذاب چکھائیں گے) اس کی تفسیر خلود فی النار سے کی گئی جو مشرک کے لائق ہے فاسق کے نہیں البتہ معتزلہ اور خوراج فاسق کے خلود فی النار کے قائل ہیں۔
Top