Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 14
وَ جَحَدُوْا بِهَا وَ اسْتَیْقَنَتْهَاۤ اَنْفُسُهُمْ ظُلْمًا وَّ عُلُوًّا١ؕ فَانْظُرْ كَیْفَ كَانَ عَاقِبَةُ الْمُفْسِدِیْنَ۠   ۧ
وَجَحَدُوْا : اور انہوں نے انکار کیا بِهَا : اس کا وَاسْتَيْقَنَتْهَآ : حالانکہ اس کا یقین تھا اَنْفُسُهُمْ : ان کے دل ظُلْمًا : ظلم سے وَّعُلُوًّا : اور تکبر سے فَانْظُرْ : تو دیکھو كَيْفَ : کیسا كَانَ : ہوا عَاقِبَةُ : انجام الْمُفْسِدِيْنَ : فساد کرنے والے
اور بےانصافی اور غرور سے ان سے انکار کیا کہ ان کے دل ان کو مان چکے تھے سو دیکھ لو کہ فسان کرنے والوں کا انجام کیسا ہوا
14: وَجَحَدُوْا بِہَا (انہوں نے ان آیات کا انکار کردیا) ۔ ایک قول : یہ ہے کہ جحود تو جاحد کے علم سے ہوتا ہے۔ مگر یہ صحیح نہیں۔ کیونکہ جحود انکار کو کہتے ہیں۔ اور بعض اوقات اشیاء کا انکار اس سے ناواقفیت کی بنیاد پر ہوتا ہے اور کبھی پہچان کے بعد ضد کی وجہ سے ہوتا ہے۔ (کذافی شرح التاویلات) الدیوان کتاب میں مذکور ہے۔ کہا جاتا ہے جحد حقہٗ وبحقہٖ ایک ہی معنی میں ہیں۔ وَاسْتَیْقَنَتْہَا (اور یقین کرچکے تھے) ۔ و او حالیہ ہے۔ اور اس کے بعد قد مضمر ہے۔ اسیتقان ایقان سے زیادہ بلیغ ہے۔ اَنْفُسُہُمْ (انکے دل) یعنی زبانوں سے تو انہوں نے انکار کیا مگر انکے ضمیر و دل ان آیات پر یقین کرچکے تھے۔ ظُلْمًا (ظلم کے طور پر) ۔ : یہ جحدوا کی ضمیر سے حال ہے۔ اور اس سے بڑھ کر ظلم کیا ہوگا کہ اللہ تعالیٰ کی آیات پر دل سے یقین کرلے مگر انسان ان کو سحر قرار دیکر انکار کر دے۔ وَّعُلُوًّا (اور تکبر کی بنا پر) ۔ ایمان سے اپنے کو بلند قرار دیتے ہوئے تکبر اختیار کیا۔ فَانْظُرْ کَیْفَ کَانَ عَاقِبَۃُ الْمُفْسِدِیْنَ (تم دیکھو تباہ کاروں کا انجام کیا ہوا) ۔ دنیا میں غرق اور آخرت میں حرق۔
Top