Madarik-ut-Tanzil - An-Naml : 48
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو اٰمَنُوْا : ایمان لائے لَا تَرْفَعُوْٓا : نہ اونچی کرو اَصْوَاتَكُمْ : اپنی آوازیں فَوْقَ : اوپر، پر صَوْتِ النَّبِيِّ : نبی کی آواز وَلَا تَجْهَرُوْا : اور نہ زور سے بولو لَهٗ : اس کے سامنے بِالْقَوْلِ : گفتگو میں كَجَهْرِ : جیسے بلند آواز بَعْضِكُمْ : تمہارے بعض (ایک) لِبَعْضٍ : بعض (دوسرے) سے اَنْ : کہیں تَحْبَطَ : اکارت ہوجائیں اَعْمَالُكُمْ : تمہارے عمل وَاَنْتُمْ : اور تم لَا تَشْعُرُوْنَ : نہ جانتے (خبر بھی نہ) ہو
اور شہر میں نو شخص تھے جو ملک میں فساد کیا کرتے تھے اور اصلاح سے کام نہیں لیتے تھے
ثمود کے مفسد : 48: وَکَانَ فِی الْمَدِیْنَۃِ (اور شہر میں) ۔ شہر سے ثمود کا شہر مراد ہے۔ جس کا نام الحجر تھا۔ تِسْعَۃُ رَہْطٍ (نو اشخاص تھے) نحو : یہ جمع ہے جس کا واحد نہیں۔ اسی لئے یہ تسعۃ کی تمیز کے طور پر استعمال ہوگیا ہے۔ گویا اس طرح فرمایا گیا۔ تسعۃ انفس۔ کیونکہ تین سے دس تک کی تمیز جمع مجرور آتی ہے۔ قول ابن درید (رح) : ان کا سربراہ قدار بن سالف تھا یہی وہ لوگ تھے جنہوں نے اونٹنی کی کونچیں کاٹنے میں دوڑ دھوپ کی تھی۔ یہ سب بڑے لوگوں کی اولاد تھے۔ یُّفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ وَلَا یُصْلِحُوْنَ (وہ زمین میں فساد مچاتے درستی نہ کرتے تھے) ۔ یعنی ان کا کام خالص بگاڑ پھیلانا تھا جس میں اصلاح کا ذرہ بھی نہ ہو۔ جیسا کہ بعض مفسدین سے کبھی کبھی صلاح و درستی بھی دیکھنے میں آتی ہے۔ قول حسن (رح) : لوگوں کے عیب نکالتے اور ستر پوشی نہ کرتے۔
Top