Madarik-ut-Tanzil - An-Nisaa : 79
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ١٘ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ١ؕ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا
مَآ : جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ حَسَنَةٍ : کوئی بھلائی فَمِنَ اللّٰهِ : سو اللہ سے وَمَآ : اور جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ سَيِّئَةٍ : کوئی برائی فَمِنْ نَّفْسِكَ : تو تیرے نفس سے وَاَرْسَلْنٰكَ : اور ہم نے تمہیں بھیجا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے رَسُوْلًا : رسول وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
(اے آدم زاد) تجھ کو جو فائدہ پہنچے وہ خدا کی طرف سے ہے اور جو نقصان پہنچے وہ تیری ہی (شامت اعمال کی) وجہ سے ہے اور (اے محمد) ہم نے تم کو لوگوں (کی ہدایت) کے لیے پیغمبر بنا کر بھیجا ہے اور (اس بات کا) خدا ہی گواہ کافی ہے
آیت 79: پھر فرمایا۔ مَآ اَصَابَکَ (جو تجھ کو پہنچے) مِنْ حَسَنَۃٍ (کوئی نعمت و احسان) کؔ کا مخاطب انسان ہے اور خطاب عام ہے۔ زجاج کہتے ہیں۔ خطاب نبی اکرم ﷺ کو ہے اور مراد آپ کے علاوہ ہیں۔ فَمِنَ اللّٰہِ (وہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے) یعنی اس کا تفضل و احسان ہے۔ وَمَآ اَصَابَکَ مِنْ سَیِّئَۃٍ (اور جو تمہیں آزمائش و مصیبت پہنچے) فَمِنْ نَّفْسِکَ (پس وہ تیری طرف سے ہے) یعنی ان اعمال کے سبب سے ہے جو تمہارے ہاتھوں نے کیے ہیں جیسا دوسری آیت میں فرما دیا۔ وما اصابکم من مصیبۃ فبما کسبت ایدیکم۔ اچھائی و برائی آپ کے اختیار میں نہیں : وَ اَرْسَلْنٰکَ لِلنَّاسِ رَسُوْلاً (اور ہم نے آپ کو لوگوں کے لئے رسول بنا کر بھیجا ہے) نمبر 1۔ آپ تقدیر بنانے والے نہیں ہیں کہ آپ کی طرف سختی کی نسبت کر رہے ہیں۔ نمبر 2۔ آپ کو لوگوں کی طرف رسول بنا کر بھیجا ہے۔ پس آپ کے ذمہ پیغام رسالت کو پہنچانا ہے۔ اچھائی و برائی آپ کے اختیار میں نہیں۔ وَکَفٰی بِاللّٰہِ شَہِیْدًا (اور اللہ تعالیٰ کی گواہی کافی ہے) کہ آپ اس کے رسول ہیں۔ یہ بھی کہا گیا۔ کہ جملہ پہلے کلام سے متصل ہے۔ کہ وہ بات کو سمجھنے کے قریب نہیں جاتے بلکہ کہتے ہیں۔ ما اصابک۔ گویا یہ بھی منافقین کا مقولہ ہے۔ : شہیداً یہ تمیز ہے۔ تردید معتزلہ : معتزلہ نے اس آیت میں حسنۃ و سیئۃ کو طاعت و معصیت قرار دیا حالانکہ یہ صراحۃً ظلم ہے اور ما اصابک اس پر زورو شور سے دلالت کر رہا ہے۔ کیونکہ اصاب و ما اصبت افعال کے لئے محاورہ میں استعمال ہوتا ہے اور دوسری بات یہ ہے کہ معتزلہ تو اس بات کے بھی قائل نہیں کہ حسنات کا خالق و موجد اللہ تعالیٰ ہے۔ پس آیت میں ان کے استدلال کی قطعاً گنجائش نہیں۔
Top