Mafhoom-ul-Quran - An-Nisaa : 79
مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ حَسَنَةٍ فَمِنَ اللّٰهِ١٘ وَ مَاۤ اَصَابَكَ مِنْ سَیِّئَةٍ فَمِنْ نَّفْسِكَ١ؕ وَ اَرْسَلْنٰكَ لِلنَّاسِ رَسُوْلًا١ؕ وَ كَفٰى بِاللّٰهِ شَهِیْدًا
مَآ : جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ حَسَنَةٍ : کوئی بھلائی فَمِنَ اللّٰهِ : سو اللہ سے وَمَآ : اور جو اَصَابَكَ : تجھے پہنچے مِنْ سَيِّئَةٍ : کوئی برائی فَمِنْ نَّفْسِكَ : تو تیرے نفس سے وَاَرْسَلْنٰكَ : اور ہم نے تمہیں بھیجا لِلنَّاسِ : لوگوں کے لیے رَسُوْلًا : رسول وَكَفٰى : اور کافی ہے بِاللّٰهِ : اللہ شَهِيْدًا : گواہ
آپ کو جو بھلائی بھی حاصل ہوتی ہے اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اور جو مصیبت آپ پر آتی ہے وہ آپ کے اپنے نفس کی طرف سے ہے۔ ہم نے آپ کو تمام لوگوں تک پیغام پہنچانے والا بنا کر بھیجا ہے اور اللہ تعالیٰ گواہ کافی ہے
مصیبت شامت اعمال کی وجہ سے تشریح : انسان کو تمام بھلائیاں، آرام و آسائش کی تمام چیزیں اللہ کی دی ہوئی ہیں۔ یہ بندے کی مرضی ہے کہ ان کو لوگوں کی اور اپنی بھلائی کے لیے استعمال کرے یا برائی کے لیے استعمال کرے۔ قرآن پاک کا یہ اعلان کہ مصیبت، دکھ اور تکلیف انسان خود اپنے ہاتھوں سے پیدا کرتا ہے۔ اس کی بڑی خوبصورت وضاحت سلطان بشیر محمود صاحب نے اپنی کتاب ” قیامت اور حیات بعد الموت “ میں کی ہے فرماتے ہیں۔ اگر کوئی ملک، قوم، معاشرہ یا فرد بلا خوف زندگی، اطمینان، امن اور ترقی کا خواہاں ہے تو ان کے لیے اصلاح کا پہلا کام یہ ہونا چاہیے کہ وہ یہ دیکھیں کہ وہ اللہ کا کوئی قانون تو نہیں توڑ رہے۔ جہاں تک ظلم کا تعلق ہے اسلام اس کو مصیبتوں کی ماں سمجھتا ہے۔ اللہ کو نہ ماننا، کفر کی طرف جھکنا، بےانصافی، رشوت، کرپشن، کم تولنا، زیادہ لینا، سود خوری، یہ سب ظلم کی شکلیں ہیں۔ اس کو روکنے کے لیے رسول ﷺ نے فرمایا : مظلوم کی مدد کرو اسے اس کا حق دلا کر، ظالم کی مدد کرو اسے ظلم سے روک کر۔ اگر کوئی قوم ظلم کی جڑ کاٹتی رہے تو یقیناً اس قوم پر مصیبتیں نازل نہیں ہوں گی۔ اس کی وضاحت کچھ یوں بھی کی جاسکتی ہے کہ ایک گندی ذہنیت کا آدمی غلط کام کا سوچے گا اور پھر سوچ پر عمل بھی غلط ہی کرے گا۔ غلط عمل کا نتیجہ بھی برا ہی نکلے گا گویا ایک غلط کام کرنے والے انسان نے پورے گھر، محلے، شہر، ملک اور دنیا کو مصیبتوں کی طرف دھکیل دیا۔ اس کے برعکس ایک نیک نیت، پر خلوص اور صاف ستھری ذہنیت والا شخص کبھی بھی غلط اور نقصان دہ کام کا سوچ نہیں سکتا اور وہ اچھے اور فائدہ مند کام کا ہی سوچتا ہے، پھر اس پر عمل کرکے خود کو، گھر کو، شہر، محلے، ملک اور دنیا کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اس طرح اللہ کا فرمان ظاہر کرتا ہے کہ انسان اپنے لیے خود مصیبتیں، پریشانیاں، دکھ اور تکلیفیں پیدا کرتا ہے۔ اللہ نے تو اس پر پورا فضل و کرم کر رکھا ہے قرآن و سنت میں زندگی گزارنے کے بہترین اصول و قوانین بتا دیئے ہیں کہ دنیا و آخرت میں کامیابیاں حاصل کرسکے اگر ہم ان پر عمل نہیں کریں گے تو زندگی وبال اور ضرر بن جائے گی۔ برے کاموں کے برے نتیجے ہوتے ہیں۔
Top