Madarik-ut-Tanzil - Az-Zukhruf : 51
وَ نَادٰى فِرْعَوْنُ فِیْ قَوْمِهٖ قَالَ یٰقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْكُ مِصْرَ وَ هٰذِهِ الْاَنْهٰرُ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ١ۚ اَفَلَا تُبْصِرُوْنَؕ
وَنَادٰى : اور پکارا فِرْعَوْنُ : فرعون نے فِيْ قَوْمِهٖ : اپنی قوم میں قَالَ يٰقَوْمِ : کہا اے میری قوم اَلَيْسَ : کیا نہیں ہے لِيْ : میرے لیے مُلْكُ مِصْرَ : بادشاہت مصر کی وَهٰذِهِ : اور یہ الْاَنْهٰرُ : دریا۔ نہریں تَجْرِيْ : جو بہتی ہیں مِنْ تَحْتِيْ : میرے نیچے سے اَفَلَا تُبْصِرُوْنَ : کیا پھر نہیں تم دیکھتے
اور فرعون نے اپنی قوم کو پکار کر کہا کہ اے قوم کیا مصر کی حکومت میرے ہاتھ میں نہیں ہے ؟ اور یہ نہریں جو میرے (محلوں کے) نیچے بہہ رہی ہیں (میری نہیں ہیں ؟ ) کیا تم نہیں دیکھتے
فرعون کی منادی : آیت 51: وَنَادٰی فِرْعَوْنُ (فرعون نے منادی کرائی) اس نے بذات خود قبطی قوم کے رؤساء کو بلایا یا اس سے منادی کرنے والے کو کہا۔ پس اس نے آواز دی۔ جیسا کہتے ہیں۔ قطع الامیر اللص۔ جب کہ وہ اس کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دے۔ فِیْ قَوْمِہٖ (اپنی قوم میں) ۔ یعنی ان کو اپنی نداء کا موقعہ و محل بنایا۔ قَالَ یٰـقَوْمِ اَلَیْسَ لِیْ مُلْکُ مِصْرَ وَ ہٰذِہِ الْاَنْہٰرُ (کہا اے میری قوم کیا مصر کی سلطنت میری نہیں ہے اور یہ نہریں) یعنی نیل کی نہریں۔ ان میں سے چار بڑی نہریں تھیں۔ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِیْ (میرے نیچے بہہ رہی ہیں) میرے محل کے نیچے سے۔ ایک قول : میرے سامنے میرے باغات میں۔ نحو : وائوعاطفہ ہے ملک مصر پر عطف ہے اور تجری الانہار سے حال ہے۔ یا واؤ حالیہ اور اسم اشارہ مبتدأ اور الانہار یہ اسم اشارہ کی صفت ہے۔ اور تجری مبتدأ کی خبر ہے۔ لطیفہ : نمبر 1۔ ہارون الرشید نے جب اس آیت کو پڑھا تو کہنے لگا۔ کہ میں مصر کی حکومت اپنے سب سے حقیر غلام کو دونگا۔ خضیب نامی غلام جو اس کے وضوء کا نگران تھا۔ اس کو مصر کی حکمرانی دے دی۔ نمبر 2۔ عبداللہ بن طاہر کو مصر کی حکومت ملی۔ تو وہ روانہ ہو کر اس کے اسقدر قریب پہنچ گئے۔ کہ اس کے مکانات نظر آنے لگے۔ تو کہنے لگے یہی وہ بستی ہے جس پر فخر کرتے ہوئے فرعون نے کہا تھا۔ الیس لی ملک مصر الاٰیۃ اللہ تعالیٰ کی قسم یہ بہت ہی معمولی اور حقیر ہے۔ میں اس میں داخل ہونا ہی نہیں چاہتا اور وہیں سے اپنے گھوڑے کی لگام پھیرلی۔ اَفَـلَا تُبْصِرُوْنَ (کیا تم دیکھتے نہیں ہو) میری قوت اور موسیٰ کی کمزوری کو اور میری مالداری اور اس کا فقر۔
Top