Madarik-ut-Tanzil - Al-A'raaf : 67
قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاهَةٌ وَّ لٰكِنِّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ
قَالَ : اس نے کہا يٰقَوْمِ : اے میری قوم لَيْسَ : نہیں بِيْ : مجھ میں سَفَاهَةٌ : کوئی بیوقوفی وَّلٰكِنِّيْ : اور لیکن میں رَسُوْلٌ : بھیجا ہوا مِّنْ : سے رَّبِّ : رب الْعٰلَمِيْنَ : تمام جہان
انہوں نے کیا کہ بھائیوں ! مجھ میں حماقت کی کوئی بات نہیں بلکہ میں رب العالمین کا پیغمبر ہوں۔
ہود ( علیہ السلام) کی جوابی تقریر نمبر 1: آیت 67، آیت 68: قَالَ یٰقَوْمِ لَیْسَ بِیْ سَفَاہَۃٌ وَّ لٰکِنّیْ رَسُوْلٌ مِّنْ رَّبِّ الْعٰلَمِیْنَ اُبَلِّغُکُمْ رِسٰلٰتِ رَبِّیْ وَاَنَا لَکُمْ نَاصِحٌ اَمیْنٌ (انہوں نے فرمایا اے میری قوم مجھ میں کم عقلی نہیں۔ لیکن میں پروردگار عالم کا بھیجا ہوا پیغمبر ہوں۔ تم کو اپنے رب کے پیغام پہنچاتا ہوں اور میں تمہارا سچا خیرخواہ ہوں) اس چیز میں جس میں میں تمہیں اس کی طرف بلاتا ہوں۔ امین اس پر جو میں تمہیں کہتا ہوں۔ یہاں وانا لکم ناصح امین فرمایا۔ ان کے قول وانالنظنک من الکاذبین کے مقابلہ میں تاکہ اسم کے مقابلہ میں اسم ہو۔ جملہ اسمیہ استمرار پر دلالت کرتا ہے۔ حسن ادب : جن لوگوں نے انبیاء کو ضلالت و سفاہت کی طرف منسوب کیا ان کے جواب میں انبیاء نے حلم ‘ چشم پوشی اور ان کے اقوال کا عدم مقابلہ ظاہر فرمایا۔ باوجود یہ کہ وہ جانتے تھے کہ ان کے مخالفین لوگوں میں گمراہ ترین اور احمق ترین لوگ ہیں۔ اس میں حسن ادب، اعلیٰ اخلاق کا شاندار نمونہ ہے اس سے اللہ تعالیٰ اپنے دوسروں بندوں کو یہ تعلیم دے رہے ہیں کہ بیوقوفوں سے کس طرح بات کریں اور ان سے کس طرح چشم پوشی اختیار کریں۔ اور ان سے ہونے والی غلطیوں پر کس طرح دامن رحمت ڈالیں۔ (سبحان اللّٰہ)
Top