Mafhoom-ul-Quran - Hud : 77
وَ لَمَّا جَآءَتْ رُسُلُنَا لُوْطًا سِیْٓءَ بِهِمْ وَ ضَاقَ بِهِمْ ذَرْعًا وَّ قَالَ هٰذَا یَوْمٌ عَصِیْبٌ
وَلَمَّا : اور جب جَآءَتْ : آئے رُسُلُنَا : ہمارے فرشتے لُوْطًا : لوط کے پاس سِيْٓءَ : وہ غمیگن ہوا بِهِمْ : ان سے وَضَاقَ : اور تنگ ہوا بِهِمْ : ان سے ذَرْعًا : دل میں وَّقَالَ : اور بولا ھٰذَا : یہ يَوْمٌ عَصِيْبٌ : بڑا سختی کا دن
اور جب ہمارے فرشتے لوط کے پاس آئے تو وہ ان کے آنے سے غم ناک اور تنگدل ہوئے اور کہنے لگے کہ آج کا دن بڑا مشکل دن ہے۔
قوم لوط کا عمل بد اور ان پر عذاب تشریح : حضرت لوط (علیہ السلام) اور ان کی قوم کا قصہ سورة اعراف کے رکوع 11 میں گزر چکا ہے۔ ان آیات میں بھی کافی تفصیل سے بتایا گیا ہے یہ بھی عبرت ناک واقعہ ہے جو قرآن پاک میں مسلمانوں کو سمجھانے کے لیے بیان کیا جا رہا ہے۔ حضرت لوط (علیہ السلام) حضرت ابراہیم (علیہ السلام) کے چچا زاد بھائی تھے آپ مصر سے ہجرت کر کے دریائے اردن کی ترائی میں آباد ہوئے یہاں سدوم، عموراہ زبویم کی بستیاں آباد تھیں اور اب ان کی جگہ بحیرہ مردار ہے جو مدینہ سے شام کے راستے میں آتا ہے۔ جیسا کہ مذکورہ آیات میں بتایا گیا ہے قوم لوط غیر فطری، خبیث اور بےحیائی کے کام کی عادی ہوگئی تھی۔ اور جب یہ عادت سر عام ہونے لگی اور وہ لوگ اخلاق و کردار کی تمام حدیں توڑ کر گناہ کی غلاظت میں ڈوب گئے تو پھر ان پر اللہ کی طرف سے انتہائی شدید زلزلہ آتش فشانی اور پتھروں کی بارش کی گئی اور ان بستیوں کا نام و نشان ہی مٹا دیا گیا مگر ان کی تباہی کے آثار ابھی بھی بحر لوط کے جنوب اور مشرق کے علاقے میں موجود ہیں۔ تاکہ لوگ ان کو دیکھ کر یہ جان لیں کہ گناہ، بےحیائی اور غیر فطری کام اللہ کو ہرگز پسند نہیں وہ لوگوں کو مہلت ضرور دیتا ہے کہ سوچ بچار کر کے مغفرت کی راہ اپنائیں مگر پھر معاشرے اور دنیا کی صفائی کرنے کا طریقہ اللہ تعالیٰ کے پاس یہی ہے کہ ہدایت کے لیے پیغمبر بھیجے جو ہدایت کی راہ اختیار نہ کرے اور حد سے بڑھ جائے اس کو پھر عذاب ہی دیا جاتا ہے جیسا کہ ان قوموں کو دیا گیا۔
Top