Mafhoom-ul-Quran - Ar-Ra'd : 35
مَثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِیْ وُعِدَ الْمُتَّقُوْنَ١ؕ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِهَا الْاَنْهٰرُ١ؕ اُكُلُهَا دَآئِمٌ وَّ ظِلُّهَا١ؕ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِیْنَ اتَّقَوْا١ۖۗ وَّ عُقْبَى الْكٰفِرِیْنَ النَّارُ
مَثَلُ : کیفیت الْجَنَّةِ : جنت الَّتِيْ : وہ جو کہ وُعِدَ : وعدہ کیا گیا الْمُتَّقُوْنَ : پرہیزگار (جمع) تَجْرِيْ : بہتی ہیں مِنْ تَحْتِهَا : اس کے نیچے لْاَنْهٰرُ : نہریں اُكُلُهَا : اس کے پھل دَآئِمٌ : دائم وَّظِلُّهَا : اور اس کا سایہ تِلْكَ : یہ عُقْبَى : انجام الَّذِيْنَ اتَّقَوْا : پرہیزگاروں (جمع) وَّعُقْبَى : اور انجام الْكٰفِرِيْنَ : کافروں النَّارُ : جہنم
جس باغ کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے۔ اس کی صفات یہ ہیں کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، اس کے پھل ہمیشہ قائم رہنے والے ہیں اور اس کے سائے بھی، یہ ان لوگوں کا انجام ہے جو متقی ہیں اور کافروں کا انجام دوزخ ہے۔
کفرو ایمان، جنت و جہنم اور اللہ کی گواہی تشریح : جنت کی بشارت صالح اور نیک لوگوں کو دی گئی ہے۔ جنت کے بارے میں فرمان نبوی ہے کسی آنکھ نے جنت دیکھی نہیں کسی کان نے سنا نہیں اور کسی دل پر اس کا خیال نہیں گزرا۔ متقی لوگ قرآن کو دنیا کی بہترین نعمت سمجھ کر خوش ہو کر پڑھتے، سمجھتے اور عمل کرتے ہیں اسی بات کا حکم بار بار دیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ کتاب ہر قسم کے علوم اور خاص طور سے رشدوہدایت کا مجموعہ ہے۔ زندگی، کائنات غرض ازل سے ابد تک اور پھر آخرت کے تمام راز بتا دیے گئے ہیں۔ عربی میں قرآن نازل کیا گیا کیونکہ آپ ﷺ کی زبان اور اہل عرب کی زبان عربی تھی۔ ان کی ہی زبان اختیار کی گئی تاکہ تمام رموز، باریکیاں اور احکامات پوری وضاحت سے سمجھا دیے جائیں۔ اور پھر نبی اکرم ﷺ کو انہیں میں سے چن کر نبی بنایا گیا تاکہ وہ ان کی معاشرت کو سمجھ کر ان کو اچھی طرح ہدایت دے سکیں۔ وہ بھی پہلے پیغمبروں کی طرح انسان ہی تھے مگر ان کو ان کے کردار اخلاق حسنہ اور نیک طینت ہونے کی وجہ سے نبوت کے لیے چن لیا گیا۔ اور آپ نے توحید کی دعوت دی اور قرآن پاک کا بہترین معجزہ آپ کو اللہ نے عطا کیا جو ہمیشہ سلامت رہے گا۔ ہر کام اللہ کی مرضی، حکمت اور طے شدہ فیصلے کے مطابق ہوتا ہے۔ اس نے لوح محفوظ پر جس کو ہم بہترین عظیم ترین کمپیوٹر کہہ سکتے ہیں جو اللہ کی تحویل میں ہے اور اس میں تمام کائنات کے ہر قسم کے عمل کو درج کردیا گیا ہے۔ یعنی تقدیر لکھ دی گئی ہے۔ جو صرف دعا، محنت اور اللہ کی مرضی سے بدل سکتی ہے۔ ورنہ اس میں کوئی دخل اندازی نہیں کرسکتا۔ انسان کا کام ہے نیکی کی راہ اختیار کرلے۔ چاروں طرف پھیلی ہوئی کائنات کو غور سے دیکھیں۔ کائنات کی ہر چیز اور خود انسان کا وجود اللہ کے وجود کی گواہی دے رہا ہے۔ اس لیے اس کے بھیجے ہوئے رسول پر ایمان لائیں اور اس کی لائی ہوئی کتاب قرآن پر ایمان لائیں غور و فکر کریں۔ اگر غور و فکر کریں تو اس کو اس میں ایسے ایسے سائنسی نکات ملیں گے کہ انسان حیران رہ جائے۔ مثال کے طور پر زمینی ساخت کا بڑا واضح اشارہ دیا کہ ” زمین کو اس کے کناروں سے گھٹاتے چلے آئے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے جس کی وضاحت ایک بہت بڑے سائنسدان یوں کرتے ہیں ” موجودہ صدی کے آخری بیس، تیس سالوں میں جو ترقی ہوئی ہے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ابتدا میں کرہ ارض اپنے موجودہ حجم سے کم ازکم سو گنا بڑا تھا، اور زمین موجودہ صورت میں پچھلے پانچ بلین سالوں کے سکڑنے کے رفتہ رفتہ عمل کی وجہ سے پہنچی ہے۔ زمین کے سکڑنے کی کئی وجوہات ہیں جس میں کشش ثقل کی طاقت نے اہم کردار ادا کیا ہے۔ دوسرا زمین کی تخلیق کے وقت سے ہی زمین کے کچھ اجزا خلا کی طرف ضائع ہوتے رہتے ہیں جس کا ایک سبب تو شمسی کشش ہے اور دوسرا تابکاری حرارت ہے جو زمین کے اندر پیدا ہوتی ہے۔ اس سے بھی زمین کا حجم گھٹتا گیا ہے۔ تیسرا زمین کے دھیرے دھیرے ٹھنڈا ہونے کی وجہ سے بھی ہوسکتی ہے۔ جس کا مطلب یہ ہے کہ زمین کا کریسٹ (چھلکا یا پرت) موٹاپا اختیار کرتا جاتا ہے۔ اور ابتدا میں جب گیس ٹھنڈی ہو کر مائع بنی تو حجم میں یکدم بہت فرق پڑگیا اس وقت سے اندرونی پگھلا ہوا حصہ (Core) بھی باہر کی طرف سے ٹھنڈا ہو کر بالترتیب گھٹ رہا ہے۔ بہرحال اس عجیب و غریب صورت حال کی کوئی بھی وجہ ہو، یہ حقیقت اپنی جگہ پر قائم ہے کہ کرہ ارض اپنے حجم میں گھٹ رہا ہے۔ “ (قیامت اور حیات بعد الموت مصنف سلطان بشیر محمود) یہ اتنی بڑی سائنسی حقیقت چودہ سو سال پہلے ایک امی کیونکر بیان کرسکتا ہے یہ بہت بڑا ثبوت ہے قرآن کے آسمانی کتاب ہونے کا۔ یہ اور اس طرح کے کئی حقائق ہیں جو اللہ نے رسول ﷺ کے ذریعے قرآن میں بتائے ہیں اور یہی سب سے بڑے ثبوت ہیں رسول کے حق ہونے کے۔ اسی لیے اللہ جل شانہٗ نے فرمایا ” کہہ دو کہ میرے اور تمہارے درمیان اللہ اور وہ شخص جس کے پاس آسمانی کتاب کا علم ہے، گواہ کافی ہے۔ “ ( سورة رعد آیت 43 ) اللہ کے فضل و رحمت کے ساتھ یہ سورت اختتام کو پہنچتی ہے۔ الحمد للہ۔
Top