Mafhoom-ul-Quran - Al-Baqara : 19
اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌ١ۚ یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِ١ؕ وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ
أَوْ کَصَيِّبٍ : یا جیسے بارش ہو مِنَ السَّمَاءِ : آسمان سے فِيهِ : اس میں ظُلُمَاتٌ : اندھیرے ہوں وَرَعْدٌ : اور گرج وَبَرْقٌ : اور بجلی يَجْعَلُونَ : وہ ٹھونس لیتے ہیں أَصَابِعَهُمْ : اپنی انگلیاں فِي آذَانِهِمْ : اپنے کانوں میں مِنَ الصَّوَاعِقِ : کڑک کے سبب حَذَرَ الْمَوْتِ : موت کے ڈر سے وَاللَّهُ : اور اللہ مُحِيطٌ : گھیرے ہوئے ہے بِالْکَافِرِينَ : کافروں کو
یا پھر ان کی مثال یوں سمجھو کہ آسمان سے زور کی بارش ہو رہی ہے۔ اور اس کے ساتھ اندھیری گھٹا کڑک اور چمک بھی ہے یہ بجلی کی کڑک سن کر اپنی جانوں کے خوف سے کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں اور اللہ ان منکرین حق کو گھیرے میں لئے ہوئے ہے۔
منافق کی بےبسی اور تذبذب تشریح جس طرح پچھلے اسباق میں منافقوں کے بارے میں بڑی وضاحت سے بتایا گیا ہے پھر مثال سے بھی سمجھایا گیا ہے تو اسی سلسلے میں دوسری قسم کے منافقین کی مثال اللہ تعالیٰ دیتا ہے یہ وہ منافقین ہیں جو دل سے مسلمان تو ہوجاتے ہیں لیکن صرف فائدہ دیکھنے کی حد تک جونہی قربانی اور آزمائش کا وقت آتا فوراً کفر کی طرف لوٹ جاتے، بارش کے فوائد سے تو لطف اندوز ہوتے ہیں مگر بادل کی کڑک اور چمک سے آنکھیں بند کرلیتے ہیں اور کانوں میں انگلیاں ٹھونس لیتے ہیں گویا بجلی کے چمکنے کی طرح جب اسلام کی برکتیں رحمتیں اور روشنی ان پر واضح ہوتی ہے تو مسلمان ہوجاتے ہیں جونہی آزمائش پڑتی ہے تو فوراً کفر کی طرف لوٹ جاتے ہیں۔ اس رکوع کی ابتداء سے منافقوں کا ذکر شروع ہوا تھا جو اب یہاں ختم ہو رہا ہے اللہ تعالیٰ نے انسان کو سننے دیکھنے کی قوتیں عطا کی ہیں مسلمان ان کو ٹھیک استعمال کرکے سربلندی اور نجات حاصل کرتا ہے جبکہ منافق ان قوتوں کو صرف دنیاوی فائدے جمع کرنے اور نفسانی خواہشوں کو پورا کرنے میں خرچ کردیتا ہے، منافق اپنی تمام صلاحیتوں کو صحیح استعمال کرنے کی بجائے ہمیشہ غلط استعمال کرتا ہے اگر اللہ تعالیٰ چاہے تو وہ ان تمام قوتوں اور صلاحیتوں کو بیک وقت سلب کرسکتا ہے وہ قدرت کاملہ رکھتا ہے لیکن وہ ایسا نہیں کرتا کیونکہ اس نے عالم کے انتظام کے لئے قاعدے، سبب اور وقت مقرر کر رکھے ہیں۔ چاہے تو وہ تمام ناپسندیدہ افراد کو نیست و نابود کر دے لیکن مقررہ قاعدوں کی وجہ سے کفار و منافقین کو ڈھیل مل جاتی ہے، تاکہ وہ غلط کاریوں سے باز آجائیں اس کے باوجود یہ لوگ اپنی غلط حرکات سے باز نہیں آتے تو پھر ان کو اللہ تعالیٰ کے غیظ و غضب کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ چناچہ اکثر منافقوں کا حال ایسا ہی ہوا آخرت میں بھی وہ گھاٹے میں رہیں گے۔ منافقین کی حالت کو بجلی کی چمک کڑک سے مثال دی گئی ہے کہ بارش جو آسمان سے برستی ہے اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں لیکن گرج چمک سے ڈرجاتے ہیں۔ یہاں پر میں بارش کے آسمان سے برسنے کے بارے میں کچھ سائنسی نکات بیان کرنا چاہوں گی۔ ہمارے خیال میں بادل سمندر سے بھاپ کی صورت میں آسمان پر اکٹھے ہوتے ہیں لیکن ان کے برسنے میں آسمان کا بہت بڑا حصہ ہے کیونکہ بھاپ کو بارش کی قطروں میں تبدیل کرنے کے لیے برقائی ذرات (Eharged particles) ضروری ہوتے ہیں۔ اور یہ (Eosmic Rays) سے نکلتی ہیں۔ اور یہ سورج سے اور دوسرے ستاروں سے نکل کر زمین کی طرف آتی ہیں۔ اور وہی ریز بھاپ یعنی بادلوں کے پانی کو قطروں میں تبدیل کرتی ہیں یوں ہواؤں کے چلنے اور بخارات کو قطروں میں تبدیل کرنے کا کام مکمل ہوتا ہے اور پھر آسمان سے قطروں کی شکل میں بارش ہوسکتی ہے۔ اس پورے رکوع میں منافقوں، ان کے انجام اور اللہ تعالیٰ کی قدرت کا ملہ کا مکمل بیان ہے۔ انسان خواہ کسی بھی شعبہ سے تعلق رکھتا ہو اس کو منافقت جیسی لعنت سے بچ کر رہنا چاہیے کیونکہ یہ معاشرے کے امن و سکون کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے۔
Top