Dure-Mansoor - Al-Baqara : 94
قُلْ اِنْ كَانَتْ لَكُمُ الدَّارُ الْاٰخِرَةُ عِنْدَ اللّٰهِ خَالِصَةً مِّنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ كُنْتُمْ صٰدِقِیْنَ
قُلْ : کہہ دیں اِنْ کَانَتْ : اگر ہے لَكُمُ ۔ الدَّارُ الْآخِرَةُ : تمہارے لئے۔ آخرت کا گھر عِنْدَ اللہِ : اللہ کے پاس خَالِصَةً : خاص طور پر مِنْ دُوْنِ : سوائے النَّاسِ : لوگ فَتَمَنَّوُا : تو تم آرزو کرو الْمَوْتَ : موت اِنْ كُنْتُمْ : اگر تم ہو صَادِقِیْنَ : سچے
ترجمہ : آپ فرما دیجئے اگر آخرت والا گھر اللہ کے نزدیک خالص تمہارے ہی لئے ہے دوسروں کے لئے نہیں تو موت کی تمنا کرو اگر تم سچے ہو
(1) ابن جریر نے ابو العالیہ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” وقالوا لن یدخل الجنۃ الا من کان ھودا ونصری “ اور انہوں نے کہا ” نحن ابناء اللہ واحباء ہ “ المائدہ تو اس کے جواب میں اللہ تعالیٰ نے یہ آیت اتاری لفظ آیت ” قل ان کانت لکم الدار الاخرۃ عند اللہ خالصۃ من دون الناس فتمنوا الموت ان کنتم صدقین “ لیکن انہوں نے موت کی تمنا نہیں کی۔ یہود کے زعم باطل کی تردید (2) امام بیہقی نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ اس آیت کے بارے میں فرمایا کہ اے محمد ﷺ ان کو فرما دیجئے لفظ آیت ” ان کانت لکم الدار الاخرۃ “ یعنی جنت جیسا کہ تم گمان کرتے ہو۔ ” خالصۃ من دون الناس “ یعنی مؤمنین کے علاوہ خالص تمہارے لئے ہے۔ لفظ آیت ” فتمنوا الموت ان کنتم صدقین “ کیونکہ وہ جنت خالص تمہارے لئے ہے مؤمنین کے علاوہ اب موت کی تمنا کرو تاکہ جلدی سے پہنچ جاؤ۔ اس کو رسول ﷺ نے فرمایا کہ اگر تم اپنی بات میں سچے ہو تو کہو اے اللہ ! ہم کو موت دے دے۔ تاکہ ہم جلدی جنت میں پہنچ جائیں۔ سو قسم ہے اس ذات کی جس کے قبضہ میں میری جان ہے تم میں سے ایک آدمی بھی ایسا نہیں کہے گا مگر وہ گلے میں اپنی تھوک نگلنے کی وجہ سے مرجائے گا۔ انہوں نے ایسا کہنے سے انکار کردیا اور جو کچھ ان کو کہا گیا تھا کہ موت کی تمنا کرو اس کو انہوں نے ناپسند کیا تو اس پر آیت نازل ہوئی لفظ آیت ” ولن یتمنوہ ابدا بما قدمت ایدیہم “ یعنی جو کچھ انہوں نے اپنے ہاتھوں سے برے اعمال کئے تھے ” واللہ علیم بالظلمین “ اور اللہ ظالموں کو جانتے ہیں۔ اس لئے وہ ہرگز اس بات کی تمنا نہیں کریں گے رسول اللہ ﷺ نے اس آیت کے نازل ہونے کے وقت فرمایا اللہ کی قسم وہ کبھی بھی اس کی تمنا نہیں کریں گے۔ (3) ابن اسحاق، ابن جریر، ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ ” فتمنوا الموت “ یعنی دونوں فریقوں میں سے جو فریق جھوٹا ہے اس پر موت کی دعا کرو تو یہود نے ایسا کرنے سے انکار کردیا اور وہ اس دن اس کی تمنا کرلیتے تو ایک یہودی بھی زمین پر زندہ نہ رہتا۔ (4) امام ابن جریر (رح) نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ لفظ آیت ” قل ان کانت لکم الدار الاخرۃ “ یعنی جنت خالصہ۔ یعنی خاص تمہارے لئے ہے ” فتمنوا الموت “ یعنی تم اللہ تعالیٰ سے موت کا سوال کرو ” ولن یتمنوہ ابدا “ وہ ہرگز تمنا نہیں کریں گے اس لئے کہ وہ جانتے تھے کہ وہ جھوٹے ہیں ” بما قدمت “ یعنی گزشتہ اعمال کی وجہ سے وہ ایسا نہیں کریں گے۔ (5) امام عبد الرزاق، ابن جریر، ابن المنذر اور ابو نعیم نے دلائل میں حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اگر یہودی موت کی تمنا کرتے تو وہ مرجاتے۔ (6) امام ابن جریر اور ابن ابی حاتم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا کہ اگر وہ موت کی تمنا کرتے تو ان میں سے ہر ایک کا گلہ تھوک کی وجہ سے گھٹ جاتا۔ (7) امام احمد، بخاری، مسلم، نسائی، ترمذی، ابن مردویہ اور ابو نعیم نے حضرت ابن عباس ؓ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : اگر یہودی موت کی تمنا کرلیتے تو مرجاتے اور اپنا ٹھکانہ آگ میں دیکھتے۔
Top