Mafhoom-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 141
كَذَّبَتْ ثَمُوْدُ الْمُرْسَلِیْنَۚۖ
كَذَّبَتْ : جھٹلایا ثَمُوْدُ : ثمود الْمُرْسَلِيْنَ : رسول (جمع)
اور قوم ثمود نے بھی رسولوں کو جھٹلایا۔
قوم ثمود اور قوم لوط اور سیدنا شعیب (علیہ السلام) کی قوم کا تذکرہ تشریح : موجودہ زمانہ میں بھی ایسے ہی بدمست ‘ عزت و دولت میں مست ہو کر تمام اخلاقی ‘ مذہبی اور تمدنی پابندیوں سے آزاد اور فخر و غرور میں ڈوبے ہوئے نافرمان لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں جو مسلمان ہوتے ہوئے بھی اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی نافرمانی کرتے ہوئے غافل ہو کر گناہوں میں ڈوب کر زندگی گزار رہے ہیں جب بھی کوئی ان کو نیکی کی ہدایت کرتا ہے تو بڑی بےنیازی سے جواب دیتے ہیں ” اوہو کوئی بات نہیں بھئی دیکھا جائے گا۔ کچھ نہیں ہوتا۔ بس سب یونہی چلتا ہے۔ بھئی تم اپنی نصیحت اپنے پاس رکھو۔ اور کہنے والے کا خوب مذاق اڑاتے ہوئے اس کو بری طرح چپ کروا دیتے ہیں۔ ان لوگوں کو سوائے اس مادی دنیا اس کے عیش و آرام ‘ جائز و ناجائز اور گناہ و مستی میں اس بات کا ہرگز خیال ہی نہیں آتا یہ سب کچھ عارضی اور مٹ جانے والا ہے۔ اگر کوئی چیز انسان کے لیے سود مند اور باقی رہ کر مدد کرنے والی ہے تو وہ تو صرف آخرت کی زندگی میں یہاں کے کیے گئے اعمال ہی ہیں۔ اس کو سوچ کر زندگی گزارنا عقل مندی تقویٰ نجات اور پرہیزگاری کا سبب بن سکتا ہے۔ ورنہ تو دنیا میں بھی بالآخر عذاب اور آخرت میں تو عذاب یقینی ہوگا۔ دوسرا طبقہ منکرین کا ہے وہ بھی ایسی ہی باتیں کرتے ہیں جیسی عاد ‘ ثمود اور سیدنا شعیب کی قومیں کرتی تھیں۔ انسانی فطرت تو شروع دن سے ایک ہی ہے۔ کچھ لوگ نیک فطرت اور کچھ بد فطرت پھر اسی کے مطابق اعمال اور پھر اسی کے مطابق انجام بھی ہوگا۔ اللہ کا پیغام شروع سے لے کر آخر تک ایک ہی مفہوم کی صورت میں نازل ہوتا رہا ہے۔ اللہ کیونکہ ابد سے ازل تک کے علم کا مالک ہے اس لیے تمام انبیاء کو ایک پیغام دیا گیا وہ ہے توحید ‘ خوف الٰہی اور آخرت پر ایمان کی کیفیت پہلی کتابوں میں وقت کیساتھ ساتھ کچھ تحریفات ہوتی گئیں ایک لاکھ چوبیس ہزار پیغمبر آئے جن میں سے تین سو پندرہ رسول (صاحب کتاب) تھے جیسا کہ احادیث میں اس کا ذکر موجود ہے۔ تمام کتابیں اصل حالت میں موجود نہ رہیں تو اس لیے اللہ رب العزت نے اپنے تمام احکامات کو انسانی زندگی کے عین مطابق جمع کر کے آخری کتاب قرآن کی صورت میں آخری نبی پر نازل فرمائی اور ساتھ یہ وعدہ بھی کیا کہ یہ کتاب اللہ کی حفاظت میں قیامت تک اصلی مضمون کے ساتھ موجود رہے گی۔ حقیقت بھی یہی ہے کہ صرف عربی زبان ایک ایسی زبان ہے جو شروع سے آج تک مفہوم ‘ الفاظ ‘ گرائمر ‘ لہجے اور تلفظ کے لحاظ سے بالکل نہیں بدلی۔ کیونکہ قرآن پاک عربی زبان میں نازل کیا گیا ہے اس لیے ہم یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ قرآن کی بدولت زبان کی بھی حفاظت ہوگئی۔ قرآن پاک کا آغاز غار حرا میں دسمبر سنہ 609 ھ میں ہوا اور 23 سال میں مکمل ہوا۔ قرآن کو لکھنے اور حفظ کرنے کا حکم نبی پاک ﷺ نے دیا جو کہ پہلے کبھی کسی کتاب کے لیے نہیں دیا گیا تھا۔ قرآن مجید کی تفسیر بھی اللہ تعالیٰ نے رسول کریم ﷺ کو سمجھائی اور نازل فرمائی جو حدیث کی صورت میں ہمارے سامنے ہے۔ بہرحال اس سے فائدہ وہی حاصل کرسکتے ہیں جو انسان کامل ہیں۔ عظیم اخلاق کے ماہرین متفقہ طور پر یہ کہتے ہیں کہ ” انسان کی زندگی جانوروں جیسی نہیں بلکہ اس کی زندگی کا کوئی عظیم مقصد ہے۔ یہ عظیم مقصد کیا ہے ؟ فضائل اخلاق کا وہ سرچشمہ (مجموعہ) ہو اور سعادت اس کی منزل ہو۔ عظیم مقصد کے حصول کے لیے راستہ بہت مشکل ہے لیکن عزم صادق (سچا ارادہ) اور خلوص نیت کے سبب وہ غالب آجاتا ہے اور اپنی منزل تک پہنچ جاتا ہے۔ اخلاق فضائل کا طالب (بہترین اخلاق والا) ان اوصاف (صفتوں) کا حامل ہوگا۔ حکمت ‘ شجاعت ‘ عفت اور عدالت۔ “ ( از مسلمان سائنس دان اور ان کی خدمات ) مقصد یہ ہے کہ انسان میں اگر یہ تمام صفات نہ ہوں تو وہ شیطان کے قبضہ میں بڑی آسانی سے آجاتا ہے اور جب شیطان کے قبضہ میں آجاتا ہے تو پھر اسی کے راستے پر چل کر بدترین زندگی گزارنے لگتا ہے اسی طرح معاشرہ خراب ہوتے ہوتے پوری قوم خراب ہوجاتی ہے جیسا کہ پچھلی تمام قوموں کے حالات بتا کر انسان کی اس کمزوری کو ثابت کیا گیا ہے۔ اور اس کا نتیجہ دنیا میں بھی برا اور آخرت میں تو بہت ہی برا ہوگا۔ اللہ سے ہر وقت نیکی کی ہدایت اور شیطان کی شرارت سے اللہ کی پناہ مانگتے رہنا چاہیے۔ سچ ہے ہر مرض کا سرچشمہ ہماری بےجا خواہشات ہیں۔ اور جو خیر کے راستے پر چلتے ہیں اللہ بھی ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ اللہ کا غالب ہونا اور مہربان ہونا سچ اور حقیقت ہے جس سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔
Top