Mafhoom-ul-Quran - Ash-Shu'araa : 7
اَوَ لَمْ یَرَوْا اِلَى الْاَرْضِ كَمْ اَنْۢبَتْنَا فِیْهَا مِنْ كُلِّ زَوْجٍ كَرِیْمٍ
اَوَلَمْ يَرَوْا : کیا انہوں نے نہیں دیکھا اِلَى الْاَرْضِ : زمین کی طرف كَمْ : کس قدر اَنْۢبَتْنَا : اگائیں ہم نے فِيْهَا : اس میں مِنْ كُلِّ : ہر قسم زَوْجٍ : جوڑا جوڑا كَرِيْمٍ : عمدہ
کیا انہوں نے زمین کی طرف نہیں دیکھا کہ ہم نے اس میں کتنی عمدہ نباتات اگائی ہیں ؟۔
دعوت توحید کی صداقت کی نشانیاں تشریح : اس کی تشریح ہم روس کے مشہور ادیب و فلسفی ٹالسٹائی کی زبانی کرتے ہیں جو مذہب سے پھرجانے کے بعد دوبارہ ایمان لایا تو اس کی مدد قدرت کے ان نظاروں نے ہی کی جو ہمارے چاروں طرف بیشمار پھیلے ہوئے ہیں۔ اپنی کتاب ” اے کنفیشن “ "A. Confession" میں ایک جگہ وہ لکھتا ہے۔” نوع انسانی کسی نہ کسی ایمان کے سہارے جی رہی ہے اور اسی سے منزل کا تعین ہوتا ہے انسانی نفس کی گہرائیوں میں ایک لامحدود فیاض اور بےمثال اللہ کا تصور موجود ہے ‘ جس سے رابطہ ہونے کے بعد دل کو سکون ملتا ہے۔ اللہ سے منحرف ہونے کے بعد میں ایک شام ایک حسین جنگل میں پھر رہا تھا۔ ہر طرف سے پر اسرار آوازیں میرے کانوں میں موسیقی انڈیل رہی تھیں۔ رنگ برنگی چڑیاں شاخوں پر پھدک رہی تھیں اور حسن فطرت پھوار کی طرح برس رہا تھا ‘ اور یہ منظر دیکھ کر مجھے خیال آیا ‘ کہ اس بےپناہ دلکشی، مستی اور سرور کا کوئی نہ کوئی خالق ہونا چاہیے اور یوں میں تین سال بھٹکنے کے بعد پھر اللہ پر ایمان لے آیا ‘ اس ایمان سے مجھے کائنات کے ہر تغیر کی توجیہ (وجہ) مل گئی حریم دل میں بجھی شمع پھر فروزاں ہوگئی ‘ جس کے اجالوں سے تشکیک (شبہات) و اضطراب کی ظلمتیں (اندھیرے) دور ہوگئیں ‘ اور مجھے یہ احساس ہوا کہ میں بیک وقت زمین پر بھی ہوں اور آسمان پر بھی۔ “ (از نفسیات و روحانی واردات ص 271) ایک کافر کو اگر اس کے چاروں طرف پھیلی ہوئی حسین کائنات ‘ نیلی فضائیں ‘ کالی گھٹائیں ‘ سبزہ زار ‘ کہسار ‘ سمندر ‘ دریا ‘ ندی ‘ نالے ‘ لہلہاتے کھیت ‘ مسکراتی کلیاں ‘ پھول ‘ پھل طرح طرح کی غذائی اجناس اللہ کے وجود کا یقین نہیں دلا سکتیں تو پھر اس کا کوئی علاج نہیں۔ کیونکہ اس سے بڑی اور کون سی نشانیاں ہوسکتی ہیں جو اس کو یہ سمجھا سکیں کہ یہ تمام انتظام کرنے والا ایک غالب اور مہربان موجود ہے جو صرف ایک ہی ہے اور سب پر اس کا غلبہ ہے سب پر مہربان بھی ہے۔ کیونکہ وہ کفار و مشرکین کو بھی تمام نعمتیں ضرور اور بیشمار دیتا ہے مگر ناشکرے لوگوں کو بڑی مہلت دیتا ہے کہ شاید کبھی ان کا دل دماغ سیدھی راہ کی طرف ان کو چلا دے۔ مگر یہ بڑی پرانی رسم چلی آرہی ہے کہ بہت سے لوگ ایمان نہیں لاتے جیسا کہ نبی اکرم حضرت محمد ﷺ سے پہلے بہت سے انبیاء آئے اور اسی طرح بہت سی قومیں گزریں ان کے واقعات یہاں بیان کیے جائیں گے تاکہ لوگ عبرت حاصل کریں اور نبی کو تسلی ہوجائے کہ یہ سب کچھ تو ضرور ہوتا ہے مگر حق کو کبھی شکست نہیں ہوتی۔ اس لیے کہ اللہ حق ہے اور سب سے زیادہ طاقتور ہے۔ اس نے ایسے خراب لوگوں کو سمجھانے کے لیے نبی ضرور بھیجے مگر زبردستی ان کو دین کی طرف دھکیلا نہیں۔ جن کی عقل نے کام کیا ‘ ایمان لے آئے تو جنت حاصل کرلی اور جن کی عقل نے کام نہ کیا کفر میں ڈوبے رہے تو انہوں نے خود اپنے لیے دوزخ کمالی۔ سب سے پہلے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) کا واقعہ بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ پہلے بھی گزر چکا ہے اب نبی ﷺ کو تسلی دینے اور کفار کو عبرت دلانے ‘ اور تمام مسلمانوں کو سبق سکھانے کے لیے پھر بیان کیا جا رہا ہے۔ یہ واقعہ اپنے طور پر بیشمار سبق آموز باتوں کا موجب ہے۔ اللہ کو پہچان لینا بڑا آسان کام ہے بس ذرا سی عقل کی ضرورت ہے۔ تو واقعہ سنیے سیدنا موسیٰ (علیہ السلام) اور فرعون کا۔
Top