Mafhoom-ul-Quran - Aal-i-Imraan : 131
وَ اتَّقُوا النَّارَ الَّتِیْۤ اُعِدَّتْ لِلْكٰفِرِیْنَۚ
وَاتَّقُوا : اور ڈرو النَّارَ : آگ الَّتِىْٓ : جو کہ اُعِدَّتْ : تیار کی گئی لِلْكٰفِرِيْنَ : کافروں کے لیے
اس آگ سے بچو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے
سود کی ممانعت، بدی کی سزا، نیکی کی جزا تشریح : پچھلی آیات میں غزوہ احد و بدر کا ذکر کیا گیا اور فوراً سود کا ذکر آگیا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان دونوں لڑائیوں میں یہودیوں کا کافی عمل دخل تھا اور ان کے ساتھ مسلمانوں کا سودی لین دین چل رہا تھا تو اللہ رب العزت نے اس تعلق سے منع کردیا، تاکہ اس تعلق کی وجہ سے بعد میں کوئی مشکل پیش نہ آئے۔ ویسے تو سود کے موضوع پر سورة ٔبقرہ میں بڑی وضاحت سے بیان کیا جا چکا ہے، یہاں پھر کہا جارہا ہے کہ سود بڑی بری لعنت ہے، اس کو چھوڑ دینا چاہئے، ہمیشہ ہمیشہ کے لیے اس سے بچنا چاہئے، اللہ سے ڈرنا چاہیے کیونکہ اسی میں انسان کے لیے نجات، بخشش اور کامیابی ہے اور حکم دیا گیا ہے کہ اس آگ سے ڈرو جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے اور ہر وقت اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت کرتے رہو اسی میں تمہاری نجات ہے اور ہر وقت نیکی، پاکبازی اور ایمان کی طرف لپکتے رہو کیوں کہ انسان کی فلاح اسی میں ہے اور ایسے ہی پرہیزگاروں کے لیے اللہ رب العزت نے جنت بنا رکھی ہے، جس کا عرض یعنی چوڑائی بہت زیادہ ہے، یوں سمجھ لو کہ زمین اور آسمانوں کے برابر وسیع و عریض ہوگی۔ جہنم تو نافرمانوں کے لیے ہے جب کہ جنت فرمانبرداروں کے لیے ہے۔ یہ اعلان کئی دفعہ قرآن مجید میں کیا جا چکا ہے تاکہ لوگ خبردارہو جائیں اور اللہ اور رسول ﷺ کے احکامات کی پابندی کریں۔ سورة ٔآل عمران آیت 164 میں اللہ فرماتا ہے۔” وہ ( آنحضرت ﷺ تلاوت کرتے ہیں ان پر اس (اللہ) کی آیات اور تزکیہ کرتے ہیں ان کا اور تعلیم دیتے ہیں ان کو کتاب اور حکمت کی۔ “ تو ظاہر ہوا کہ اللہ اور رسول ﷺ کی اطاعت ہی جنت کا وارث بنا سکتی ہے اور نافرمانی دوزخ میں لے جائے گی۔ جنت اور دوزخ کیا ہیں ؟ جناب سلطان بشیر محمود صاحب اپنی کتاب ” قیامت اور حیات بعد الموت “ میں لکھتے ہیں : ” سوچنے کی بات ہے کہ آنے والی کائنات کے بڑے بڑے علاقے جنت، دوزخ اور اعراف ہیں اور ان میں سے اکیلی ایک جنت ہی موجودہ تمام کائنات سے بڑی ہے اس لحاظ سے نئی کائنات کی تمام تر وسعت کا اندازہ لگانا انسانی عقل سے باہر ہے۔ خاص طور سے جب یہ سوچیں کہ موجودہ نظام قدرت ہی انسانی عقل کو حیران کرنے کے لیے کافی ہے۔ “ مزید لکھتے ہیں کہ ” مسلمان سائنس دانوں کے لیے ضروری ہے کہ ان حقائق کو اپنی حساب دانی (علم) سے ثابت کرکے انسانیت کو راہ دکھائیں۔ “ مزید لکھتے ہیں کہ ” منفی اور مثبت کائنات کا نظریہ قرآن کے جوڑوں میں پیدائش “ والے قانون سے ثابت ہوتا ہے سورة یٰسین آیت 36 میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں پاک ہے وہ اللہ جس نے سب چیزوں کو جوڑوں میں پیدا کیا وہ تمام جو زمین سے پیدا ہوتے ہیں اور خود انسان کی اپنی ذات اور ان تمام چیزوں میں جن کا انہیں کوئی علم نہیں۔ “ اسی طرح کائنات اور انٹی کائنات کا نظریہ بھی سائنسی حلقوں میں جانا پہچانا نظریہ ہے اور کہا جاتا ہے کہ اگر ہماری اس کائنات کا کہیں منفی جوڑا موجود ہے تو پھر ان دونوں کی قیامت کے لیے کسی لمبے چوڑے حساب کی ضرورت نہیں۔ جیسے ہی قریب ہوں گے اچانک ایک آواز آئے گی اور پھر کچھ باقی نہ رہے گا۔ “ مزید لکھتے ہیں۔ کائنات کا آغاز اس کی انتہاء اور پھر نئے سرے سے آغاز، یہ سبھی ایک ہی خالق کی تخلیق ہیں اور یہ سب کچھ اللہ کے مقرر شدہ اندازے کے تحت ہو رہا ہے موجودہ نظام کا خاتمہ اتنا ہی ضروری ہے جیسے اس کی بنیاد ضروری تھی۔ دراصل یہ خاتمہ نہیں بلکہ ایک نئی کائنات کی ابتداء ہوگی، جو موجودہ کائنات سے بہت بڑی اور شاندار ہوگی اور موجودہ کائنات میں رہنے والوں کا گھر ہوگی۔ “ سورة آل عمران کی آیت 133 جس کی تشریح ہم کر رہے ہیں اس سے یہ بات پوری طرح واضح ہوجاتی ہے کہ موجودہ زمین و آسمان کی جگہ نئے زمین و آسمان ہوں گے اور وہ ان سے بےحد بڑے، لمبے اور چوڑے ہوں گے۔ آنے والے جہان میں انسانی وجود کس شکل میں ہوگا ؟ اس کا جواب قرآن کی روشنی میں تو یہی ملتا ہے کہ وہ جہان بھی زندگی سے بھرپور ہوگا، اس کی جنت اور جہنم زندہ انسانوں کے رہنے کی جگہ ہوگی۔ جنت راحت، آرام، خوشیوں اور بیشمار آسانیوں کی شاندار جگہ ہوگی جو نیکو کار، پرہیزگار اور اللہ سے ڈرنے والوں کو دی جائے گی، جبکہ جہنم، آگ سے بھڑکتا ہوا، خوفناک، بدترین اور تکلیف دہ ٹھکانہ ہوگا جو موجودہ دنیا کے بدکار، نافرمان، کافر، جھوٹے، منافق، فسادی، قاتل اور برے لوگوں کا گھر ہوگا اور پھر اللہ رب العزت نے بار بار فرمایا ہے کہ جنت کا ٹھکانہ اور دوزخ کا ٹھکانہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے ہوگا۔ کتنی آسان بات ہے کہ ہم ہمیشہ ہمیشہ رہنے والی زندگی کے لیے اس دنیا کی ختم ہوجانے والی زندگی کو نیکی کے راستوں پر چل کر گزار دیں دوسروں کو بھی نیکی کی ہدایت کریں اور برائی سے منع کریں۔ اللہ جل شانہ ہمیں اس کی توفیق دے اور ہماری نیکیوں کو قبول کرکے جنت میں جگہ دے۔ آمین۔
Top