Ahsan-ut-Tafaseer - An-Nisaa : 70
سَبَّحَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ۚ وَ هُوَ الْعَزِیْزُ الْحَكِیْمُ
سَبَّحَ : پاکیزگی بیان کرتا ہے لِلّٰهِ : اللہ کی مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا فِي الْاَرْضِ ۚ : اور جو زمین میں وَهُوَ : اور وہ الْعَزِيْزُ : غالب الْحَكِيْمُ : حکمت والا
اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے
سَبَّحَ لِلّٰہِ مَافِی السَّمٰوٰتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ ج وَھُوَالْعَزِیْزُالْحَکِیْمُ ۔ (الحشر : 1) (اللہ کی تسبیح کی ہے ہر اس چیز نے جو آسمانوں میں ہے اور زمین میں ہے، اور وہی زبردست اور حکمت والا ہے۔ ) تسبیح کا مفہوم تسبیح اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور اس کے افعال کو ہر عیب سے منزہ ٹھہرانے کا نام ہے۔ یعنی اس کا اصل استعمال اللہ تعالیٰ کی تنزیہہ کے لیے ہوتا ہے۔ اس لحاظ سے اس کا مطلب یہ ہے کہ آسمانوں اور زمین میں اللہ تعالیٰ کی جتنی بھی مخلوقات ہیں چاہے وہ ہمارے نزدیک ذی روح ہوں یا جامد اور مردہ، سب اللہ تعالیٰ کی ذات، اس کی صفات اور اس کے افعال کی پاک بیان کرتی ہیں۔ اور یہ کام مخلوقات نے ہر دور میں کیا ہے۔ ماضی میں بھی کیا ہے، حال میں بھی جاری ہے اور مستقبل میں بھی ہوگا۔ اسی لیے قرآن کریم نے کہیں اس کے لیے فعل ماضی استعمال کیا ہے اور کہیں فعل مضارع استعمال کیا ہے۔ دوسری بات اس آیت کریمہ میں یہ فرمائی گئی ہے کہ جس طرح اللہ تعالیٰ کی ذات، صفات اور اس کے افعال ہر طرح کی کمزوری، عیب اور نارسائی سے پاک ہیں، اسی طرح اس کے احکام بھی اپنی تنفیذ میں حتمی اور محکم ہیں۔ کوئی مخلوق اس کی نافرمانی کرنے پر قادر نہیں۔ البتہ جن مخلوقات کو اللہ تعالیٰ نے فی الجملہ اس کا اختیار دے رکھا ہے وہ بھی نافرمانی کی صورت میں اللہ تعالیٰ کی پکڑ سے بچ نہیں سکتے۔ اس لیے اس کا علم بھی لامحدود ہے اور اس کی قدرت بھی بےپناہ ہے۔ کیونکہ وہ عزیز اور غالب ہے جسے کسی مرحلے پر چیلنج نہیں کیا جاسکتا۔ البتہ اس کا اقتدارِمطلق اور اس کی قدرت کاملہ چونکہ ہر کمزوری اور ہر عیب سے پاک ہیں اس لیے وہ اپنے اظہار میں صرف قدرت کی نمود نہیں رکھتے بلکہ ان کا اظہار کامل علم اور کامل حکمت کے ساتھ ہوتا ہے۔ بلاشبہ اقتدار مقتدر کو اندھا کردیتا ہے۔ غصہ آئے تو بےقابو ہوجاتا ہے، انتقام پر اتر آئے تو عدل کے تقاضوں کو بھول جاتا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کی قدرت باقی صفات کی طرح اپنے اندر بھی پاکیزگی کی شان رکھتی ہیں۔ اس لیے جب بھی اس کا اظہار ہوتا ہے تو حکمت کے تقاضوں کے مطابق ہوتا ہے۔ اسی لیے یہاں عزیز کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے لیے حکیم کی صفت کا استعمال کیا گیا ہے۔
Top