Mafhoom-ul-Quran - Al-Hujuraat : 6
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِنْ جَآءَكُمْ فَاسِقٌۢ بِنَبَاٍ فَتَبَیَّنُوْۤا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًۢا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰى مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ
يٰٓاَيُّهَا : اے الَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا : جو لوگ ایمان لائے اِنْ : اگر جَآءَكُمْ : آئے تمہارے پاس فَاسِقٌۢ : کوئی فاسق بدکردار بِنَبَاٍ : خبرلے کر فَتَبَيَّنُوْٓا : تو خوب تحقیق کرلیاکرو اَنْ تُصِيْبُوْا : کہیں تم ضرر پہنچاؤ قَوْمًۢا : کسی قوم کو بِجَهَالَةٍ : نادانی سے فَتُصْبِحُوْا : پھر ہو عَلٰي : پر مَا : جو فَعَلْتُمْ : تم نے کیا (اپنا کیا) نٰدِمِيْنَ : نادم
اے لوگو جو ایمان لائے ہو ! اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کرلیا کرو۔ ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کو نادانی سے نقصان پہنچا دو اور تمہیں اپنے کیے پر شرمندہ ہونا پڑے۔
خبر کی تحقیق ضروری ہے تشریح : اس آیت کا شان نزول مولانا مودودی صاحب تفہیم القرآن میں لکھتے ہیں کہ اکثر مفسرین کا بیان ہے کہ یہ آیت ولید بن عقبہ بن ابی معیط کے بارے میں نازل ہوئی تھی۔ واقعہ اس طرح ہے کہ قبیلہ بنی المصطلق جب مسلمان ہوگیا تو رسول اللہ ﷺ نے ولید بن عقبہ کو ان لوگوں سے زکوٰۃ لینے بھیجا۔ مگر وہ کسی وجہ سے وہاں نہیں گئے اور واپس آکر کہہ دیا کہ وہ زکوٰۃ دینے سے انکار کررہے ہیں اور مجھے قتل کرنا چاہتے ہیں۔ یہ خبر سن کر نبی اکرم ﷺ نے فوج کشی کا ارادہ کرلیا مگر قبیلہ کے سردار حارث بن ضرار آنحضرت ﷺ کی خدمت میں پہنچ گئے اور بتایا کہ ” ولید بن عقبہ تو وہاں گئے تک نہیں ہم لوگ اپنے عہد پر قائم ہیں اور زکوٰۃ دینے کے لیے بالکل تیار ہیں ”۔ یوں اصل حقیقت سامنے آگئی اور ایک بہت بڑا خطرہ ٹل گیا۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کو ایک اصولی ہدایت دی کہ کبھی بھی کسی اہم خبر پر بغیر تحقیق کیے یقین نہیں کرنا چاہیے۔ پوری تحقیق کے بعد کوئی قدم اٹھانا چاہیے کیونکہ اس طرح انسان یا جماعت برے وقت پریشانی اور نقصان سے بچ سکتے ہیں۔ یہی اصول افواہوں کے لیے بھی بنایا گیا ہے۔ کیونکہ کسی بھی جماعت یا طبقہ کو شکست دینے کا بہت بڑا ہتھیار یہ ہے کہ غلط افواہیں پھیلا کر ان میں بےچینی، بےسکونی اور بد اعتمادی پیدا کردی جائے اس طرح کا اندرونی انتشار کسی قوم کو تباہ کرنے کے لیے بہترین ہتھیار ہے۔ کسی بھی شخص کو یہ اجازت نہیں کہ بلا تحقیق کسی خبر کو آگے پہنچائے۔ ایسا شخص فاسق کہلاتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے اس کام کو بہت ناپسند کیا ہے حدیث میں آتا ہے۔ محمد بن مثنیٰ بیان کرتے ہیں کہ میں نے عبدالرحمن بن مہدی کو فرماتے سنا ہے کہ جب تک انسان بعض سنی سنائی باتوں سے زبان کو نہیں روکے گا وہ قابل اقتدا امام نہیں بنے گا۔ (مسلم) از اسوہ حسنہ مصنفہ بنت الاسلام۔ یہاں تک جو معاشرتی آداب سکھائے گئے ہیں ان کو ہم دہرائے لیتے ہیں۔ 1 ۔ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی اطاعت 2 ۔ رسول کریم ﷺ کا ادب، نہ ان سے آگے بڑھاجائے نہ آواز اونچی کی جائے اور نہ ہی گھر کے باہر سے آواز لگائی جائے۔ 3 ۔ اور آخر میں بلا تحقیق خبر پر یقین کرنا اور افواہیں پھیلانا۔ یہ اصول ایک فرد سے لیکر پوری دنیا کے لیے سکون، ترقی اور کامیابی کے ضامن ہیں۔
Top