Mafhoom-ul-Quran - Al-Hadid : 22
مَاۤ اَصَابَ مِنْ مُّصِیْبَةٍ فِی الْاَرْضِ وَ لَا فِیْۤ اَنْفُسِكُمْ اِلَّا فِیْ كِتٰبٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ نَّبْرَاَهَا١ؕ اِنَّ ذٰلِكَ عَلَى اللّٰهِ یَسِیْرٌۚۖ
مَآ اَصَابَ : نہیں پہنچتی مِنْ : سے مُّصِيْبَةٍ : کوئی مصیبت فِي الْاَرْضِ : زمین میں وَلَا فِيْٓ اَنْفُسِكُمْ : اور نہ تمہارے نفسوں میں اِلَّا : مگر فِيْ كِتٰبٍ : ایک کتاب میں ہے مِّنْ قَبْلِ : اس سے پہلے اَنْ نَّبْرَاَهَا ۭ : کہ ہم پیدا کریں اس کو اِنَّ ذٰلِكَ : بیشک یہ بات عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر يَسِيْرٌ : بہت آسان ہے
کوئی مصیبت تم پر اور ملک پر نہیں پڑتی مگر پیشتر اس کے کہ ہم اس کو پیدا کریں ایک کتاب میں لکھی ہوئیـ ہے اور یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے
ﷲ نے لوح محفوظ میں سب لکھ رکھا ہے۔ نہ گھبراؤ نہ اتراؤ تشریح : ان آیات میں رب کائنات کے بڑے زبردست کمالات اور بہترین اصول و ضوابط کا ذکر کیا گیا ہے جو کہ ہمیں کائنات کے ذرے ذرے میں چاہے وہ انسان ہو، حیوان ہو، نباتات ہو، جمادات ہو یا فرشتے ہوں یا پھر اجرام فلکی ہوں یا ہوا پانی اور آگ ہوں غرض ہر چیز میں دکھائی دیتے ہیں سب چیزیں اللہ کے پہلے بنائے ہوئے ڈیزائن کے مطابق چل رہی ہیں اور وہ ڈیزائن اور ان کے اصول اللہ کے پاس لکھے ہوئے محفوظ پڑے ہیں اور جہاں محفوظ کئے گئے ہیں اس کو رب العزت لوح محفوظ کا نام دیتے ہیں۔ ہم اس کو یوں سمجھ سکتے ہیں کہ جیسے انسان ایک کمپیوٹر میں پورا پروگرام بنا کر رکھ دیتا ہے پھر اس پر متعدد بٹن لگا دیتا ہے اب بنانے والا تو خوب جانتا ہے کہ کس بٹن کو دبانے سے کیا کام ہوگا۔ اب چلانے والے دوسرے بندے کے سامنے جب وہ کمپیوٹر آتا ہے تو وہ اس میں سیٹ کر دے گئے پروگرام کے اندر ہی رہ کر کچھ کرسکتا ہے جو بھی وہ چاہے، اس کو کیونکہ چلانے کے لئے ہدایات دے دی گئی ہیں، آزادی اور ارادہ بھی دے دیا گیا ہے اس لئے وہ اپنی مرضی سے اس کے بٹن دباتا ہے۔ یہی حال تقدیر اور اعمال کا ہے۔ انسان کی زندگی یعنی تقدیر اس کی جین (Gene) پر لکھی ہوئی وہ کتاب ہے جو انسان کے اختیار سے تبدیل نہـیں ہوسکتی ہاں دعا، زبردست خواہش اور انتھک کوشش اللہ کی اس لکھی گئی کتاب میں اللہ کی مرضی سے تھوڑا سا فرق لاسکتی ہے۔ اور یہ لکھی گئی کتاب ہماری زندگی کے لیے امتحانی پرچہ کی حیثیت رکھتی ہے اور اس کے حل کرنے میں انسان کے عقیدے، تربیت، علم، کوشش، رجحان اور شخصیت کا کمال ہے کہ وہ اس کا کس درجہ کمال یا زوال سے حل کرتا ہے۔ یعنی شیطانی استاد کے زیر اثر یا پیغمبر کی تعلیمات کے زیر اثر کام کرتا ہے۔ یہ تو ہوگئی بندے کی صلاحیت اب ذرا اس قادر مطلق کی صلاحیت پر بھی نظر کریں۔ کہ باری تعالیٰ کا علم اس قدر وسیع اور کامل ہے کہ وہ ہر چیز کے اوپر پوری طرح چھایا ہوا ہے۔ اس لیے وہ خوب جانتا ہے کہ کون بندہ کیا کام کرے گا یا کس راستے پر چلے گا اور کائنات میں کب، کیسے، کیونکر اور کن اسباب سے کیا ہونے والا ہے، ہوچکا ہے یا ہورہا ہے۔ سب کچھ اللہ کے دائرہ قدرت و علم میں موجود ہے کیونکہ اس نے ہر چیز کی تقدیر، پلان اور انجام پہلے سے اپنے پاس مرتب کر کے رکھ چھوڑا ہے۔ یہ سمجھ لینا بہت آسان ہے ایک شخص بلڈنگ بنانے سے پہلے نقشہ ضرور بناتا ہے اور پھر خوب جانتا ہے کہ کہاں کیا خرابی ہے یا اچھائی ہے۔ تو بھلا یہ اتنی بڑی کائنات بغیر پری پلان کے کیسے بن سکتی ہے۔ لہٰذا کوئی واقعہ چاہے اس کا تعلق عالم افلاک سے ہو عالم حیوانات، نباتات یا جمادات سے ہو سب رب ذوالجلال کے قانون قدرت اور نظام فطرت کے ساتھ جکڑے ہوئے ہیں اور اسی کو قضاء و قدر کا نام دیا جاتا ہے۔ کیونکہ یہ کائنات کوئی حادثاتی عمل سے وجود میں نہیں آئی اللہ تعالیٰ نے صاف الفاظ میں فرما دیا ہے۔ ' اور اللہ کا حکم تو (پہلے سے) تجویز کیا ہوا ہے۔ (الاحزاب :38) تقدیر کا پابند نباتات و جمادات اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کا فائدہ کیا ہے ؟ فائدہ یہ ہے کہ دنیا کا نظام بغیر ایک عظیم و حکیم قادر مطلق کے کنٹرول کے چل ہی نہیں سکتا۔ یہاں کی ایک ایک کل اور ایک ایک پرزہ اس کے علم اور کنٹرول میں ہے اب رہا انسان تو اس کو اللہ نے اپنا نائب بنایا علم، آزادی اور ارادہ تو ضرور دے دیا، مگر ایک حد سے باہر انسان کا نکل جانا ناممکن ہے۔ قضاء و قدر کی پابندی خود انسان کی بہتری کے لئے لگائی گئی ہے کیونکہ جو لوگ قضاء وقدر پر ایمان رکھتے ہیں وہ حادثات زمانہ کو بہادری سے برادشت کرلیتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں حوادث زمانہ کیونکہ اللہ کی طرف سے ہیں لہٰذا ان میں کوئی نہ کوئی بہتری ضرور ہوگی۔ اسی طرح انسانی زندگی کے تغیر و تبدل کو بھی بندہ بڑے حوصلہ، ہمت، خود داری، جرأت مندی اور دلیری سے برداشت کرلیتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے جو ٹل گیا وہ ملنے والا نہیں اور جو مل گیا وہ جانے والا نہیں اور یوں انسان خواہ مخواہ کی پریشانی، اضطراب، کشمکش اور ذہنی پریشانی سے بالکل آزاد ہوجاتا ہے وہ جانتا ہے جو ہوا اللہ کی مرضی سے ہوا۔ ضرور اس میں کوئی نہ کوئی بہتری ہوگی۔ یا پھر یہ ہمارے اپنے اعمال کے صلے میں ہے۔ حدیث میں آتا ہے۔ رسول کریم ﷺ نے حضرت عبد اللہ بن عباس سے فرمایا : جان لو کہ سب لوگ مل کر بھی اگر تمہیں معمولی سا نفع پہچانا چاہیں تو وہ نہ پہنچا سکیں گے مگر اسی قدر جتنا کہ رب العزت نے تمہارے لیے لکھ دیا ہے اور اگر وہ سب مل کر تمہیں نقصان پہنچانا چاہیں تو وہ یہ بھی نہ کرسکیں گے۔ مگر اتنا ہی جتنا اللہ تعالیٰ نے مقدر میں لکھ دیا ہے۔ قلم اٹھالیے گئے اور دفتر خشک ہوگئے۔ (ترمذی۔ احمد) راضی برضا ہوجانا انسان میں انسانیت کے بلند ترین اوصاف پیدا کردیتا ہے جیسا کہ تاریخ گواہ ہے کہ امت مسلمہ نے کس قدر زبردست کامیابیاں حاصل کیں کیونکہ ان میں دیگر اعتقادات کے علاوہ قضاء و قدر پر بھی پختہ یقین تھا جس کی وجہ سے ان میں سخاوت، شجاعت، صبر ویقین شرافت اور برد باری کی وجہ سے بہت کم مدت میں بہت دور دراز تک بہت زیادہ عرصہ تک دنیا میں کامیاب حکمرانی کی۔ لیکن جیسے جیسے قضا و قدر کے مفہوم کو سمجھنے میں فطور آتا گیا مسلمانوں میں کمزوری آنے لگی۔ کسی گروہ نے کہا کہ ہم اعمال کے ذمہ دار نہیں کیونکہ اللہ نے ہمارے لیے گمراہی لکھ دی ہے۔ کچھ نے کہا کچھ کرنے کی ضرورت نہیں جو ملنا ہوگا نصیب میں لکھا مل جائے گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ عقیدے کی کمزوری نے انسان میں بجائے ہمت، جرأت، بہادری اور سخاوت جیسے اوصاف پیدا کرنے کے اس کو بزدل کنجوس، بےکار، سست اور ناکارہ بنا کر رکھ دیا۔ جب کہ ہر طبقہ میں قضاء و قدر کو بہترین زینہ قرار دیا گیا ہے۔ ترقی کے لیے کامیابی، سکون اور دیگر انسانی خوبیوں کے حصول کے لیے۔ انگریزی کا یہ مقولہ "Trust in God and Do the best" اللہ جل شانہ، بھلائی کا حکم دیتا ہے ' اور جو نیک کام تم کرتے ہو اللہ اس کو خوب جانتا ہے ( سورة بقرہ :197) اللہ نے یہ نہیں کہا کہ برے کام کرو کیونکہ یہ تمہاری قسمت میں لکھدیے گئے ہیں بلکہ یہ مسئلہ تو یوں حل ہوجاتا ہے کہ اس نے دنیا ہمارے سامنے رکھ دی جس میں ہر قسم کی اچھائی اور برائی بھری ہوئی ہے۔ ہمیں ہدایات بھی بذریعہ نبی ﷺ پہنچا دیں پھر ہمیں آزادی دے دی کہ نیک راستہ اختیار کرو یا برا۔ مگر اس کا علم اتنا وسیع ہے وہ پہلے سے جانتا ہے کہ یہ بندہ نیکی اختیار کرے گا اور یہ بدی اختیار کرے گا۔ جیسا کہ ماں کو اپنے بچوں کا خوب اندازہ ہوجاتا ہے کہ یہ نیک فطرت ہے اور یہ بد فطرت ہے۔ قضاء قدر بھی اللہ تعالیٰ کے علیم وخبیر ہونے کی دلیل ہے اور ناظم اعلیٰ ہونے کی دلیل ہے نہ کہ بےانصاف اور ظالم ہونے کی دلیل ہے۔ اللہ تو سب سے بڑا انصاف کرنے والا ہے۔ اگر اس نے خود ہی کسی کو برائی کے لیے بنا دیا ہو تو پھر اس کو جہنم کا عذاب کیسے دے سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ' بلاشبہ اللہ کسی پر ذرہ برابر بھی ظلم نہیں کرتا۔ ( سورة نسا :40 ) پھر ایک اور جگہ فرمایا ' اور تمہارا رب بندوں پر ظلم کرنے والا نہیں ' (فصلت :46) بلکہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ' اور نیکی کرتے رہو تاکہ کامیاب رہو۔ (الحج :77) اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ' (مسلمانو ! ) بیشک اللہ حکم دیتا ہے کہ انصاف کرو اور بھلائی کرو، اور قرابتداروں کے حقوق ادا کرو، بےحیائی کے کاموں، ناشائستہ کاموں اور ظلم و زیادتی سے منع کرتا ہے اور تمہیں نصیحت کرتا ہے تاکہ تم یاد رکھو۔ (نحل : 90) یہ تو اب کسی کے اپنے اختیار میں ہے احکاماتِ الٰہی پر پابندی کر کے جنت حاصل کرے یا نافرمانی کر کے دوزخ حاصل کرلے۔ امید ہے قضاء و قدر کا یہ انتہائی نازک مگر ضروری نکتہ پوری طرح سمجھ میں آگیا ہوگا۔ اب کوئی شک و شبہ اس مسئلہ میں باقی نہیں رہ گیا۔ تو ایک سچے پکے عزم و حوصلہ رکھنے والے بندہ مسلم کی تعریف شاعر یوں کرتا ہے۔ خاکی و نوری نہاد بندہ مولا صفات ہر دو جہاں سے غنی اس کا دل بےنیاز (اقبال) آخر میں رب العٰلمین اپنے عدل و انصاف، پیغمبروں کتابوں کی رحمتوں کا ذکر فرماتا ہے اور ایک بڑی نعمت لوہے کا بھی ذکر کرتا ہے۔ لوہا جیسا کہ اپنے بیشمار فوائد کے ساتھ انسان کو عطاء کیا گیـا ہے۔ سب جانتے ہیں کہ کائنات کے اس کارخانے میں لوہے کی کس قدر اہمیت ہے۔ لیکن اگر کوئی اس بہترین دھات کو ظلم و بےانصافی کرنے کے لیے استعمال کرے تو بیشک یہ اسکا اپنا ذاتی کردار ہوگا۔ مگر اس کی نیت عمل اور سوچ اللہ سے ہرگز پوشیدہ نہیں رہ سکتی اور جو نیکی اختیار کر کے اللہ کی راہ پر چلتے ہوئے رسولوں کی تعلیمات کو عام کرتے ہیں انکو ربِ دو جہاں خوب اچھی طرح جانتا ہے کیونکہ ' اللہ زبردست اور غالب ہے۔ (آیت 25)
Top