Mafhoom-ul-Quran - Al-Qalam : 36
مَا لَكُمْ١ٙ كَیْفَ تَحْكُمُوْنَۚ
مَا لَكُمْ : کیا ہے تم کو كَيْفَ تَحْكُمُوْنَ : کیسے تم فیصلے کرتے ہو
تمہیں کیا ہوگیا ہے کیسی تجویزیں کرتے ہو ؟
کفار کی خوش فہمیاں، نبی ﷺ کو صبر کی تلقین تشریح : پچھلی آیات میں مسلمان اور کافر کی سزا و جزا کو علیحدہ علیحدہ کر کے بتا دیا گیا ہے کہ یہ اس غلط فہمی میں مبتلا ہیں کہ کیونکہ ہم یعنی کفار مکہ کے سردار دنیا میں امیر کبیر ہیں تو اس لیے ہیں کہ ہم سے اللہ خوش ہے تو اس نے ہمیں یہ تمام نعمتیں دے رکھی ہیں اس لیے آخرت اگر آئی تو وہاں بھی ہمیں کسی تحریر میں رب العزت نے ان سے اس بات کا وعدہ کر رکھا ہے کہ ان کو تو انعام و اکرام دئیے جائیں گے اور مسلمان کیونکہ یہاں اس دنیا میں کچھ کم حیثیت ہیں اس لیے آخرت میں بھی ان کو کچھ نہیں ملے گا۔ کچھ ہی دیر کی بات ہے بہت جلد سب کچھ سامنے آنے والا ہے (جب ساق کھول دی جائے گی) صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین اور تابعین عظام رحمہم اللہ کی ایک جماعت کہتی ہے کہ یہ الفاظ محاورے کے طور پر استعمال ہوئے ہیں عربی محاورے کے مطابق سخت وقت آپڑنے کو کشف ساق سے تعبیر کیا جاتا ہے اور ابن عباس ؓ کے قول کے مطابق کشف ساق سے مراد حقائق سے پردہ اٹھانا لیا گیا ہے یعنی جس روز تمام حقائق بےنقاب ہوجائیں گے اور لوگوں کے اعمال کھل کر سامنے آجائیں گے۔ میدان حشر میں اللہ رب العزت ایسے ظاہر ہوں گے کہ سب لوگ سجدہ میں گر پڑیں گے سوائے ان لوگوں کے جو دنیا میں سجدہ نہ کرتے تھے۔ سزا کے طور پر ان کا جسم تختے یا لوہے کا بن جائے گا کہ وہ سجدہ کرنا بھی چاہیں گے تو سجدہ نہ کرسکیں گے اور ان کا شرمندگی اور ذلت سے برا حال ہو رہا ہوگا یہ سب کچھ ان کو بتا دیا گیا ہے مگر نہ مانیں تو پھر اس عذاب کے لیے تیار ہوجائیں جو آہستہ آہستہ ان کو میری طرف سے دیا جائے گا۔ جو میری تدبیر کے مطابق ان کو مہلت دی جاتی ہے یہ لوگ اس کا شعور نہیں رکھتے۔ حیرت کی بات ہے کہ یہ لوگ خواہ مخواہ ہٹ دھرمی کر رہے ہیں تو اللہ نے فرمایا کہ میں خود عنقریب ان سے نمٹ لوں گا اس لیے اے نبی ﷺ آپ بالکل پریشان نہ ہوں اور گبھرا کر کوئی ایسی بات نہ کر بیٹھیں جیسی غلطی سیدنایونس (علیہ السلام) سے ہوگئی تھی۔ کہ وہ غصہ میں قوم سے کہہ بیٹھے کہ تم پر عذاب آنے والا ہے اور خود اللہ کی اجازت کے بغیر وہاں سے چل دئیے کشتی میں سے دریا میں پھینک دئیے گئے اور مچھلی کے پیٹ میں جا پہنچے وہاں سخت تنگ ہوئے تو اللہ سے دعا کی اور اللہ نے مچھلی کو حکم دیا تو اس نے آپ کو میدان میں اگل دیا پھر اللہ نے آپ (علیہ السلام) پر فضل کیا تو کدو کی بیل نے آپ کو سایہ دیا اور کھانے کا بھی بندوبست کیا گیا۔ اور پھر آپ (علیہ السلام) کو برگزیدہ بندوں میں شامل کیا۔ یہ قصہ تفصیلاً کئی سورتوں میں گزر چکا ہے۔ پھر رسول ﷺ کو حکم دیا گیا ہے کہ آپ ان کفار کی طرف سے بالکل پریشان نہ ہوں بلکہ اپنا کام تندہی سے کرتے جائیں قرآن پاک تو بہترین مضامین سے بھرا پڑا ہے اور اس میں وعظ و نصیحت کی اتنی خوبصورت آیات ہیں کہ جو ہر قوم ہر ملک و ملت کے ہر فرد کے لیے باعث نصیحت ہیں ہر زمانے کے لوگ ان سے بھرپور فائدہ اٹھاسکتے ہیں اگر غوروفکر کریں تو۔ قرآن کی روشنی اور خوشبو دنیا کے ہر باشندے کے لیے یکساں ہے۔ چاہے وہ کالا ہو گورا ہو یا درمیانہ ہو عورت ہو مرد ہو بوڑھا ہو یا جوان۔ ایماں کی حفاظت تجھے مطلوب اگر ہے قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلمان خلاصہ سورة القلم اس سورت میں قلم کی اور قلم سے لکھے گئے قرآن کی قسم کھا کر رسول کریم ﷺ کے انسان کامل ہونے اور سچے اور آخری نبی ہونے کی تصدیق کی گئی ہے۔ قلم کی افادیت سے کون واقف نہیں اور اس سے جو سب سے بڑا مفید اور بہترین کام لیا گیا ہے وہ ہے قرآن پاک کی تحریر ایک ایسی تحریر جو بندے کو شروع سے لیکر آخر لمحہ تک کی ہدایات سے آگاہ کرتی ہے۔ زمان و مکان کی تمام مخلوقات سے واقفیت دلاتی ہے۔ یہ کتاب اس قدر کامل بہترین اور جامع ہے کہ دنیا کے ہر ملک علاقے اور ہر خطے کے ہر انسان کے لیے مفید ہدایت کا سرچشمہ اور روشنی کا ذریعہ ہے۔ زندگی کے ہر پہلو کو بہترین طریقہ سے انسان کے سامنے واضح کردینا تاکہ زندگی کامیاب اور آخرت میں بھی نجات حاصل ہو سکے قرآن کی فضیلت ہے۔ لہٰذا یہ انسانیت کے لیے رحمت نور اور فضل و کرم کا درجہ رکھتا ہے۔ تو جو لوگ اس سے انکار کرتے ہیں اپنا بہت بڑا نقصان کرتے ہیں۔ یہاں دنیا میں بھی اپنی تباہی کا سامان کرتے ہیں اور آخرت میں تو ان کے لیے ایسا عذاب تیار کیا گیا ہے کہ جس کو بیان کرنے سے ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب وہ اس عذاب کو دیکھیں گے تو سوائے حسرت کے اور کچھ بھی نہ کرسکیں گے کیونکہ عمل کا اور توبہ کا وقت گزر چکا ہوگا۔ اور وہ دردناک عذاب میں ضرور ڈال دئیے جائیں گے۔ اس لیے کہہ سکتے ہیں کہ قرآن دنیا و آخرت کی ہر قسم کی خبروں سے بھرا ہوا ہے۔ اور اس کی سچائی مسلّم ہے۔ الحمد للہ کہ سورة القلم مکمل ہوئی۔
Top