Mafhoom-ul-Quran - Al-Anfaal : 31
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَاۤ١ۙ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیات قَالُوْا : وہ کہتے ہیں قَدْ سَمِعْنَا : البتہ ہم نے سن لیا لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَقُلْنَا : کہ ہم کہہ لیں مِثْلَ : مثل هٰذَآ : اس اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّآ : مگر (صرف) اَسَاطِيْرُ : قصے کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (اگلے)
اور جب ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر سنائی جاتی ہیں تو کہتے ہیں یہ کلام ہم نے سن لیا ہے۔ اگر ہم چاہئیں تو ایسا ہی کلام ہم بھی کہہ دیں اور یہ ہے ہی کیا صرف اگلے لوگوں کی حکایتیں ہیں۔
عذاب کا مطالبہ اور عذاب نہ آنے کی وجہ تشریح : یہ آیات اس زمانہ کے حالات بتا رہی ہیں جب رسول اللہ ﷺ نے نبوت کا دعویٰ کیا۔ یہ واقعہ اس وقت پیش آیا جب آپ کی عمر چالیس سال کی ہوئی تھی 610 عیسوی میں غار حرا میں پہلی وحی آپ ﷺ پر نازل ہوئی۔ توحید کی تعلیم اہل مکہ کے لیے بڑی عجیب و غریب تھی۔ اس لیے اکثریت میں لوگ آپ ﷺ کے جانی دشمن ہوگئے تب 622 ء میں آپ نے مدینہ ہجرت کی۔ 1 ہجری 14 نبوت تھی۔ ہجرت سے پہلے کے حالات یہ تھے کہ جب آپ ﷺ لوگوں کو قرآنی آیات پڑھ کر سناتے تو کفار مکہ لاپروائی سے کہتے کہ یہ کوئی بڑے کمال کی آیات نہیں ہیں ہم تو اس سے اچھا کلام سنا سکتے ہیں اور پھر دوسرا اعتراض یہ کرتے کہ کیا رکھا ہوا ہے اس کلام میں صرف پچھلے لوگوں کے قصے کہانیاں ہی تو بتائی گئی ہیں۔ ان دونوں باتوں کا جواب ” سورة البقرۃ “ میں تفصیل سے دیا جا چکا ہے۔ اور پھر عذاب کا مطالبہ کرنے لگے کہ آسمان سے ہم پر پتھر برسا دو اگر قرآن سچا ہے۔ تو اس کا جواب رب العالمین نے یہ دیا کہ تم پر عذاب فی الحال نہیں آسکتا کیونکہ یہ اللہ کے ارادے، پروگرام اور مصلحت کے خلاف ہے۔ جب تک کوئی نبی قوم میں موجود ہو عذاب نہیں آسکتا کیونکہ محمد رسول اللہ ﷺ ابھی مکہ میں موجود ہیں۔ جب وہ ہجرت کر گئے تو پھر ان لوگوں کی وجہ سے عذاب ٹلا رہا جو الہ العالمین کی عبادت کرتے رہتے اور اس کا فضل و کرم اور بخشش مانگتے رہتے لیکن جب مدینہ میں ایک چھوٹی سی اسلامی ریاست قائم ہوگئی اور تمام مسلمان مکہ سے چلے گئے تو اب کوئی وجہ نہ تھی کہ ان پر عذاب نہ آئے۔ کفر و شرک کے علاوہ اہل مکہ نے یہ کام بھی کیا کہ جب سنہ 6 ہجری یا 19 نبوت کا زمانہ تھا تو آپ ﷺ خانہ کعبہ کی زیارت کے لیے آئے تو قریش اہل مکہ نے آپ ﷺ کو روک دیا اور اگلے سال حج کی اجازت کے لیے ان کے ساتھ معاہدہ کرلیا۔ معائدہ یہ تھا۔ -1 دس برس تک صلح رہے، آپس میں آنا جانا، لین دین جاری رہے۔ جو قبیلہ چاہے مسلمانوں سے مل جائے جو چاہے قریش سے ملا رہے۔ -2 مسلمان اگلے سال آکر خانہ کعبہ میں نماز پڑھ سکیں گے۔ -3 اگر قریش کا کوئی شخص مسلمان ہو کر آپ ﷺ کے پاس جا پہنچے تو اسے واپس بھیج دیا جائے اگر کوئی مسلمان اسلام چھوڑ کر مکہ واپس آجائے تو اسے واپس نہیں بھیجا جائے گا۔ اس پر مسلمان گھبرا اٹھے مگر رسول اللہ ﷺ نے اسے منظور فرما لیا۔ کیونکہ اس میں بڑی مصلحتیں تھیں۔ سب سے بڑھ کر یہ بات کہ آپ ﷺ نے فرمایا : میں اللہ کا رسول ہوں، میں اس کی مخالفت نہیں کرسکتا۔ یہ سب اس لیے بیان کیا گیا کہ اہل مکہ مسجد حرام میں عبادت کرنے سے منع کرتے تھے اور یہ بہت ہی بری بات تھی۔ کیونکہ وہ لوگ اصل میں خانہ کعبہ کے متولی تو نہ تھے۔ خانہ کعبہ تو اصل میں پرہیزگاروں کی عبادت گاہ ہے۔ اور یہ عبادت گاہ سیدنا ابراہیم اور سیدنا اسماعیل (علیہما السلام) نے ملکر عرب کے شہر مکہ میں بنائی تھی یہ عبادت کے لیے سب سے پہلا گھر یا مسجد تعمیر کی گئی تھی۔ جب یہ تعمیر کی گئی تو یہاں کوئی آبادی نہ تھی۔ سیدنا اسماعیل (علیہ السلام) نے یہاں رہائش اختیار کرلی اور پھر شہر مکہ آباد ہونا شروع ہوگیا۔ ان دونوں پیغمبروں کے بعد لوگ آہستہ آہستہ ان کی تعلیمات کو بھلا کر کفر و شرک میں مبتلا ہوگئے۔ خانہ کعبہ میں تین سو ساٹھ بت رکھ دیے اور طواف کرنے کا طریقہ انتہائی شرمناک اختیار کرلیا۔ جس کا ذکر اگلی آیات میں کیا جا رہا ہے۔
Top