Urwatul-Wusqaa - Al-Anfaal : 31
وَ اِذَا تُتْلٰى عَلَیْهِمْ اٰیٰتُنَا قَالُوْا قَدْ سَمِعْنَا لَوْ نَشَآءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَاۤ١ۙ اِنْ هٰذَاۤ اِلَّاۤ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ
وَاِذَا : اور جب تُتْلٰى : پڑھی جاتی ہیں عَلَيْهِمْ : ان پر اٰيٰتُنَا : ہماری آیات قَالُوْا : وہ کہتے ہیں قَدْ سَمِعْنَا : البتہ ہم نے سن لیا لَوْ نَشَآءُ : اگر ہم چاہیں لَقُلْنَا : کہ ہم کہہ لیں مِثْلَ : مثل هٰذَآ : اس اِنْ : نہیں هٰذَآ : یہ اِلَّآ : مگر (صرف) اَسَاطِيْرُ : قصے کہانیاں الْاَوَّلِيْنَ : پہلے (اگلے)
اور جب ان کے سامنے ہماری آیتیں پڑھی جاتی ہیں تو کہتے ہیں ہاں ! ہم نے سن لیا اگر چاہیں تو ہم بھی اس طرح کی باتیں کہہ لیں یہ اس کے سوا کیا ہے کہ جو لوگ پہلے گزر چکے ان کی لکھی ہوئی داستانیں ہیں
آیات الٰہی کو سن کر یہ لوگ کہتے ہیں کہ ہم چاہیں تو ایسی باتیں ہم بھی کہہ سکتے ہیں : 43: وہ ڈینگیں مارتے ہوئے کہتے ہیں کہ یہ باتیں تو ہماری پہلے ہی سنی ہوئی ہیں اگر چاہیں تو ہم بھی اس طرح کی باتیں کہہ سکتے ہیں۔ آخر ان میں ہے ہی کیا۔ پچھلے سرسڑوں کی باتیں ہی تو ہیں ؟ جب ان کو کہا جاتا کہ تم ان باتوں کا جواب کیوں نہیں دیتے تو ان کا جواب یہی ہوتا کہ اس طرح تو یہ تہریک مزید پھیلے گی اور لوگ اس میں دلچسپی لینے لگیں گے۔ پس اس باتیں سن کر ان سنی کردو گے تو یقیناً یہ تحریک آج نہیں تو کل اپنی موت آپ مرجائے گی اس طرح نہ بانس رہے گا نہ بانسری بجے گی۔ دیکھو آخر اس کی ساری باتیں ہی تو تمہارے باپ داد کے خلاف ہیں اور پھر کیا تمہارے باپ دادا سارے ہی غلط تھے جو باتیں آج تک کسی کی سمجھ میں نہ آئیں وہ ساری کی ساری اس کی سمجھ میں آگئیں کیا کبھی سارے لوگوں کے مقابلہ میں ایک کی بات بھی سچی ہو سکتی ہے ؟ دراصل اس کو کسی کی مار لگ گئی ہے اور یہ باگل مجنون ہوچکا ہے۔ عقل اس کی صحیح نہیں رہی۔ ایسی باتوں کا علاج صرف یہ ہے کہ ان پر کان نہ دھرا جائے۔ قرآن کریم نے ایسی باتیں کہنے والوں سے بار بار مطالبہ کیا ” اگر تمہیں اس کلام کی سچائی میں کوئی شک ہے جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو تم بھی اس کی سی ایک سورت بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن جن کو تم نے اپنا حمایتی سمجھ رکھا ہے ان سب کو بھی اپنی مدد کے لیے بلالو اگر تم سچے ہو “ (البقرہ 2 : 23) فرمایا : ” کیا یہ لوگ کہتے ہیں کہ اس شخص نے اللہ کے نام پر افتراء کیا ہے ؟ تم کہو اگر تم اپنے اس قول میں سچے ہو تو قرآن کی مانند ایک سورة بنا لاؤ اور اللہ کے سوا جن جن ہستیوں کو اپنی مدد کے لیے بلا سکتے ہو بلا لو “ (یونس 10 : 38) اور پھر ان کو اس طرح چیلنج بھی کیا کہ : ” اے پیغمبر اسلام ! اس بات کا اعلان کر دے کہ اگر تمام انسان اور جن اکٹھے ہو کر چاہیں کہ اس قرآن کریم کی مانند کوئی کلام پیش کردیں تو کبھی پیش نہ کرسکیں گے اگرچہ ان میں سے ہر ایک دوسرے کا مددگار ہی کیوں نہ ہو “ (بنی اسرائیل 17 : 88) اس طرح سورة ہود ( 11 : 13) میں اور سورة القصص (49 : 50) میں ان کو مخاطب فرمایا گیا لیکن انہوں نے کبھی ہمت نہ کی اور نہ رہتی دنیا تک کوئی کرے گا۔ اس کی مکمل تشریح ہم نے سورة البقرہ کی آیت 23 کے تحت بیان کردی ہے جو جلد اول کے ص 182 سے 202 تک چلی گئی ہے۔ وہاں سے تفصیل ملاحظہ کرلیں۔
Top