Tafseer-e-Majidi - Yunus : 34
قُلْ هَلْ مِنْ شُرَكَآئِكُمْ مَّنْ یَّبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ١ؕ قُلِ اللّٰهُ یَبْدَؤُا الْخَلْقَ ثُمَّ یُعِیْدُهٗ فَاَنّٰى تُؤْفَكُوْنَ
قُلْ : آپ پوچھیں هَلْ : کیا مِنْ : سے شُرَكَآئِكُمْ : تمہارے شریک مَّنْ : جو يَّبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ يُعِيْدُهٗ : پھر اسے لوٹائے قُلِ : آپ کہ دیں اللّٰهُ : اللہ يَبْدَؤُا : پہلی بار پیدا کرتا ہے الْخَلْقَ : مخلوق ثُمَّ : پھر يُعِيْدُهٗ : اسے لوٹائے گا فَاَنّٰى : پس کدھر تُؤْفَكُوْنَ : پلٹے جاتے ہو تم
آپ کہیے کیا تمہارے (تجویز کئے ہوئے) شرکاء میں کوئی ایسا بھی ہے جو پہلی بار پیدا کرے پھر دوبارہ بھی کرے ؟ آپ کہہ دیجئے کہ اللہ ہی پہلی بار بھی پیدا کرتا ہے پھر وہی دوبارہ بھی کرے گا پھر تم کہاں پھرے جاتے ہو ؟ ،58۔
58۔ یعنی حق سے ضلال کی طرف۔ قرآن مجید کا ایک عام اسلوب بیان یہ ہے کہ اکثر ایسے موقعوں پر جواب میں ” اللہ “ بھی مشرکوں ہی کی زبان سے نقل کردیتا ہے۔ (آیت) ” فسیقولون اللہ “۔ لیکن یہاں کوئی ایسا اقرار مشرکوں کی زبان سے نقل نہیں کیا ہے۔ بلکہ (آیت) ” قل اللہ “ خود اپنی طرف سے کہا ہے۔۔۔ راز اس فرق کا یہ ہے کہ مخاطبین اول یعنی مشرکین عرب تو سرے سے عقیدہ بعثت ومعاد کے قائل ہی نہ تھے۔
Top