Home
Quran
Recite by Surah
Recite by Ruku
Translation
Maududi - Urdu
Jalandhary - Urdu
Junagarhi - Urdu
Taqi Usmani - Urdu
Saheeh Int - English
Maududi - English
Tafseer
Tafseer Ibn-e-Kaseer
Tafheem-ul-Quran
Maarif-ul-Quran
Tafseer-e-Usmani
Aasan Quran
Ahsan-ul-Bayan
Tibyan-ul-Quran
Tafseer-Ibne-Abbas
Tadabbur-e-Quran
Show All Tafaseer
Word by Word
Nazar Ahmed - Surah
Nazar Ahmed - Ayah
Farhat Hashmi - Surah
Farhat Hashmi - Ayah
Word by Word English
Hadith
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Sunan Abu Dawood
Sunan An-Nasai
Sunan At-Tirmadhi
Sunan Ibne-Majah
Mishkaat Shareef
Mauwatta Imam Malik
Musnad Imam Ahmad
Maarif-ul-Hadith
Riyad us Saaliheen
Android Apps
IslamOne
QuranOne
Tafseer Ibne-Kaseer
Maariful Quran
Tafheem-ul-Quran
Quran Urdu Translations
Quran Word by Word
Sahih Bukhari
Sahih Muslim
Mishkaat Shareef
More Apps...
More
Seerat-un-Nabi ﷺ
Fiqhi Masail
Masnoon Azkaar
Change Font Size
About Us
View Ayah In
Navigate
Surah
1 Al-Faatiha
2 Al-Baqara
3 Aal-i-Imraan
4 An-Nisaa
5 Al-Maaida
6 Al-An'aam
7 Al-A'raaf
8 Al-Anfaal
9 At-Tawba
10 Yunus
11 Hud
12 Yusuf
13 Ar-Ra'd
14 Ibrahim
15 Al-Hijr
16 An-Nahl
17 Al-Israa
18 Al-Kahf
19 Maryam
20 Taa-Haa
21 Al-Anbiyaa
22 Al-Hajj
23 Al-Muminoon
24 An-Noor
25 Al-Furqaan
26 Ash-Shu'araa
27 An-Naml
28 Al-Qasas
29 Al-Ankaboot
30 Ar-Room
31 Luqman
32 As-Sajda
33 Al-Ahzaab
34 Saba
35 Faatir
36 Yaseen
37 As-Saaffaat
38 Saad
39 Az-Zumar
40 Al-Ghaafir
41 Fussilat
42 Ash-Shura
43 Az-Zukhruf
44 Ad-Dukhaan
45 Al-Jaathiya
46 Al-Ahqaf
47 Muhammad
48 Al-Fath
49 Al-Hujuraat
50 Qaaf
51 Adh-Dhaariyat
52 At-Tur
53 An-Najm
54 Al-Qamar
55 Ar-Rahmaan
56 Al-Waaqia
57 Al-Hadid
58 Al-Mujaadila
59 Al-Hashr
60 Al-Mumtahana
61 As-Saff
62 Al-Jumu'a
63 Al-Munaafiqoon
64 At-Taghaabun
65 At-Talaaq
66 At-Tahrim
67 Al-Mulk
68 Al-Qalam
69 Al-Haaqqa
70 Al-Ma'aarij
71 Nooh
72 Al-Jinn
73 Al-Muzzammil
74 Al-Muddaththir
75 Al-Qiyaama
76 Al-Insaan
77 Al-Mursalaat
78 An-Naba
79 An-Naazi'aat
80 Abasa
81 At-Takwir
82 Al-Infitaar
83 Al-Mutaffifin
84 Al-Inshiqaaq
85 Al-Burooj
86 At-Taariq
87 Al-A'laa
88 Al-Ghaashiya
89 Al-Fajr
90 Al-Balad
91 Ash-Shams
92 Al-Lail
93 Ad-Dhuhaa
94 Ash-Sharh
95 At-Tin
96 Al-Alaq
97 Al-Qadr
98 Al-Bayyina
99 Az-Zalzala
100 Al-Aadiyaat
101 Al-Qaari'a
102 At-Takaathur
103 Al-Asr
104 Al-Humaza
105 Al-Fil
106 Quraish
107 Al-Maa'un
108 Al-Kawthar
109 Al-Kaafiroon
110 An-Nasr
111 Al-Masad
112 Al-Ikhlaas
113 Al-Falaq
114 An-Naas
Ayah
1
2
3
4
5
6
7
8
9
10
11
12
13
14
15
16
17
18
19
20
21
22
23
24
25
26
27
28
29
Get Android App
Tafaseer Collection
تفسیر ابنِ کثیر
اردو ترجمہ: مولانا محمد جوناگڑہی
تفہیم القرآن
سید ابو الاعلیٰ مودودی
معارف القرآن
مفتی محمد شفیع
تدبرِ قرآن
مولانا امین احسن اصلاحی
احسن البیان
مولانا صلاح الدین یوسف
آسان قرآن
مفتی محمد تقی عثمانی
فی ظلال القرآن
سید قطب
تفسیرِ عثمانی
مولانا شبیر احمد عثمانی
تفسیر بیان القرآن
ڈاکٹر اسرار احمد
تیسیر القرآن
مولانا عبد الرحمٰن کیلانی
تفسیرِ ماجدی
مولانا عبد الماجد دریابادی
تفسیرِ جلالین
امام جلال الدین السیوطی
تفسیرِ مظہری
قاضی ثنا اللہ پانی پتی
تفسیر ابن عباس
اردو ترجمہ: حافظ محمد سعید احمد عاطف
تفسیر القرآن الکریم
مولانا عبد السلام بھٹوی
تفسیر تبیان القرآن
مولانا غلام رسول سعیدی
تفسیر القرطبی
ابو عبدالله القرطبي
تفسیر درِ منثور
امام جلال الدین السیوطی
تفسیر مطالعہ قرآن
پروفیسر حافظ احمد یار
تفسیر انوار البیان
مولانا عاشق الٰہی مدنی
معارف القرآن
مولانا محمد ادریس کاندھلوی
جواھر القرآن
مولانا غلام اللہ خان
معالم العرفان
مولانا عبدالحمید سواتی
مفردات القرآن
اردو ترجمہ: مولانا عبدہ فیروزپوری
تفسیرِ حقانی
مولانا محمد عبدالحق حقانی
روح القرآن
ڈاکٹر محمد اسلم صدیقی
فہم القرآن
میاں محمد جمیل
مدارک التنزیل
اردو ترجمہ: فتح محمد جالندھری
تفسیرِ بغوی
حسین بن مسعود البغوی
احسن التفاسیر
حافظ محمد سید احمد حسن
تفسیرِ سعدی
عبدالرحمٰن ابن ناصر السعدی
احکام القرآن
امام ابوبکر الجصاص
تفسیرِ مدنی
مولانا اسحاق مدنی
مفہوم القرآن
محترمہ رفعت اعجاز
اسرار التنزیل
مولانا محمد اکرم اعوان
اشرف الحواشی
شیخ محمد عبدالفلاح
انوار البیان
محمد علی پی سی ایس
بصیرتِ قرآن
مولانا محمد آصف قاسمی
مظہر القرآن
شاہ محمد مظہر اللہ دہلوی
تفسیر الکتاب
ڈاکٹر محمد عثمان
سراج البیان
علامہ محمد حنیف ندوی
کشف الرحمٰن
مولانا احمد سعید دہلوی
بیان القرآن
مولانا اشرف علی تھانوی
عروۃ الوثقٰی
علامہ عبدالکریم اسری
معارف القرآن انگلش
مفتی محمد شفیع
تفہیم القرآن انگلش
سید ابو الاعلیٰ مودودی
Maarif-ul-Quran - Al-Hadid : 27
ثُمَّ قَفَّیْنَا عَلٰۤى اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا وَ قَفَّیْنَا بِعِیْسَى ابْنِ مَرْیَمَ وَ اٰتَیْنٰهُ الْاِنْجِیْلَ١ۙ۬ وَ جَعَلْنَا فِیْ قُلُوْبِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّ رَحْمَةً١ؕ وَ رَهْبَانِیَّةَ اِ۟بْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَیْهِمْ اِلَّا ابْتِغَآءَ رِضْوَانِ اللّٰهِ فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَایَتِهَا١ۚ فَاٰتَیْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْهُمْ اَجْرَهُمْ١ۚ وَ كَثِیْرٌ مِّنْهُمْ فٰسِقُوْنَ
ثُمَّ
: پھر
قَفَّيْنَا
: پے در پے بھیجے ہم نے
عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ
: ان کے آثار پر
بِرُسُلِنَا
: اپنے رسول
وَقَفَّيْنَا
: اور پیچھے بھیجا ہم نے
بِعِيْسَى ابْنِ مَرْيَمَ
: عیسیٰ ابن مریم کو
وَاٰتَيْنٰهُ
: اور عطا کی ہم نے اس کو
الْاِنْجِيْلَ
: انجیل
وَجَعَلْنَا
: اور ڈال دیا ہم نے
فِيْ قُلُوْبِ
: دلوں میں
الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ
: ان لوگوں کے جنہوں نے پیروی کی اس کی
رَاْفَةً
: شفقت کو
وَّرَحْمَةً ۭ
: اور رحمت کو
وَرَهْبَانِيَّةَۨ
: اور رہبانیت
ابْتَدَعُوْهَا
: انہوں نے ایجاد کیا اس کو
مَا كَتَبْنٰهَا
: نہیں فرض کیا تھا ہم نے اس کو
عَلَيْهِمْ
: ان پر
اِلَّا ابْتِغَآءَ
: مگر تلاش کرنے کو
رِضْوَانِ
: رضا
اللّٰهِ
: اللہ کی
فَمَا رَعَوْهَا
: تو نہیں انہوں نے رعایت کی اس کی
حَقَّ رِعَايَتِهَا ۚ
: جیسے حق تھا اس کی رعایت کا۔ نگہبانی کا۔ پابندی کا
فَاٰتَيْنَا الَّذِيْنَ
: تو دیا ہم نے ان لوگوں کو
اٰمَنُوْا
: جو ایمان لائے
مِنْهُمْ
: ان میں سے
اَجْرَهُمْ ۚ
: ان کا اجر
وَكَثِيْرٌ مِّنْهُمْ
: اور بہت سے ان میں سے
فٰسِقُوْنَ
: فاسق ہیں
پھر پیچھے بھیجے ان کے قدموں پر اپنے رسول اور پیچھے بھیجا ہم نے عیسیٰ مریم کے بیٹے کو اور اس کو ہم نے دی انجیل اور رکھ دی اس کے ساتھ چلنے والوں کے دل میں نرمی اور مہربانی اور ایک ترک کرنا دنیا کا جو انہوں نے نئی بات نکالی تھی ہم نے نہیں لکھا تھا یہ ان پر مگر کیا چاہنے کو اللہ کی رضا مندی پھر نہ نبھایا اس کو جیسا چاہئے تھا نبھانا پھر دیا ہم نے ان لوگوں کو جو ایمان دار تھے ان کا بدلہ اور بہت ان میں نافرمان ہیں
ان کے خصوصی ذکر کے بعد پورے سلسلہ انبیاء کو ایک مختصر جملے میں بیان فرمایا (آیت) ثُمَّ قَفَّيْنَا عَلٰٓي اٰثَارِهِمْ بِرُسُلِنَا، آخر میں خصوصیت کے ساتھ آخر انبیاء بنی اسرائیل حضرت عیسیٰ ؑ کا ذکر کر کے حضرت خاتم الانبیاء ﷺ اور آپ کی شریعت کا ذکر فرمایا گیا حضرت عیسیٰ ؑ پر ایمان لانے والے ان کے حواریین کی خاص صفت یہ بتلائی گئی (وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ۭ وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا) یعنی جن لوگوں نے حضرت عیسیٰ ؑ یا انجیل کا اتباع کیا ہم نے ان کے دلوں میں رافت اور رحمت پیدا کردی، یعنی یہ لوگ آپس میں ایک دوسرے پر مہربان و رحیم ہیں، یا پوری خلق خدا کے ساتھ ان کو شفقت و رحمت کا تعلق ہے، رافت و رحمت کے دونوں لفظ ایک دوسرے کے ہم معنی اور مرادف سمجھے جاتے ہیں، یہاں مقابلہ کی وجہ سے بعض حضرات نے فرمایا کہ رافت شدت رحمت کو کہا جاتا ہے گویا عام رحمت سے اس میں زیادہ مبالغہ ہے اور بعض نے فرمایا کہ کسی شخص پر رحمت و شفقت کے دو تقاضے عادةً ہوتے ہیں، ایک یہ کہ وہ اگر کسی تکلیف و مصیبت میں مبتلا ہے تو اس کی تکلیف کو دور کردیا جائے اس کو رافت کہا جاتا ہے، دوسرے یہ کہ اس کو کسی چیز کی ضرورت ہے تو وہ دے دیجائے، یہ رحمت ہے، غرض رافت کا تعلق دفع مضرت کے ساتھ ہے اور رحمت کا جلب منفعت کے ساتھ اور چونکہ دفع مضرت ہر اعتبار سے مقدم سمجھی جاتی ہے، اس لئے عموماً جب یہ دونوں لفظ یک جا بولے جاتے ہیں تو رافت کو رحمت پر مقدم بولا جاتا ہے۔
یہاں حضرت عیسیٰ ؑ کے اصحاب جن کو حواریین کہا جاتا ہے ان کی خصوصی صفت رافت و رحمت بیان فرمائی گئی ہے، جیسا کہ رسول کریم ﷺ کے صحابہ کرام کی چند صفات سورة فتح میں بیان فرمائی ہیں، جن میں ایک صفت رحمآء بینھم بھی ہے، مگر وہاں اس صفت سے پہلے صحابہ کرام کی خاص صفت اشدآء علی الکفار بھی بیان فرمائی ہے، وجہ فرق کی یہ معلوم ہوتی ہے کہ حضرت عیسیٰ ؑ کی شریعت میں کفار سے جہاد و قتال کے احکام نہ تھے، اس لئے کفار کے مقابلہ میں شدت ظاہر کرنے کا وہاں کوئی محل نہ تھا واللہ اعلم۔
رہبانیت کا مفہوم اور ضروری تشریح
وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا، رہبانیت، رہبان کی طرف منسوب ہے، راہب اور رہبان کے معنی ہیں ڈرنے والا، حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد جب بنی اسرائیل میں فسق و فجور عام ہوگیا، خصوصاً ملوک اور رؤسا نے احکام انجیل سے کھلی بغاوت شروع کردی، ان میں جو کچھ علماء و صلحاء تھے انہوں نے اس بدعملی سے روکا تو ان کو قتل کردیا گیا، جو کچھ بچ رہے انہوں نے دیکھا کہ اب منع کرنے اور مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں، اگر ہم ان لوگوں میں مل جل کر رہے تو ہمارا دین بھی برباد ہوگا، اس لئے ان لوگوں نے اپنے اوپر یہ بات لازم کرلی کہ اب دنیا کی سب جائز لذتیں اور آرام بھی چھوڑ دیں، نکاح نہ کریں، کھانے پینے کے سامان جمع کرنے کی فکر نہ کریں، رہنے سہنے کے لئے مکان اور گھر کا اہتمام نہ کریں، لوگوں سے دور کسی جنگل پہاڑ میں بسر کریں، یا پھر خانہ بدوشوں کی طرح زندگی سیاحت میں گزار دیں، تاکہ دین کے احکام پر آزادی سے پورا پورا عمل کرسکیں، ان کا یہ عمل چونکہ خدا کے خوف سے تھا، اس لئے ایسے لوگوں کو راہب یا رہبان کہا جانے لگا، ان کی طرف نسبت کر کے ان کے طریقہ کو رہبانیت سے تعبیر کرنے لگے۔
ان کا یہ طریقہ چونکہ حالات سے مجبور ہو کر اپنے دین کی حفاظت کے لئے تھا اس لئے اصالةً کوئی مذموم چیز نہ تھی، البتہ ایک چیز کو اللہ کے لئے اوپر لازم کرلینے کے بعد اس میں کوتاہی اور خلاف ورزی بڑا گناہ ہے، جیسے نذر اور منت کا حکم ہے کہ وہ اصل سے تو کسی پر لازم و واجب نہیں ہوتی، خود کوئی شخص اپنے اوپر کسی چیز کو نذر کر کے حرام یا واجب کرلیتا ہے تو پھر شرعاً اس کی پابندی واجب اور خلاف ورزی گناہ ہوجاتی ہے، مگر ان میں سے بعض لوگوں نے رہبانیت کا نام رکھ کر دنیا طلبی اور عیش و عشرت کا ذریعہ بنا لیا کیونکہ عام آدمی ایسے لوگوں کے معتقد ہوئے، تحفے تحائف اور نذرانے آنے لگے، لوگوں کا ان کی طرف رجوع ہوا تو فواحش کی نوبت آنے لگی۔
قرآن کریم نے آیت مذکورہ میں ان کی اسی بات نکیر فرمائی، کہ خود ہی تو اپنے اوپر ترک لذات کو لازم کیا تھا، جو منجانب اللہ ان پر لازم نہ کیا گیا تھا اور جب لازم کرلیا تو پھر اس کی پابندی ان کو کرنا چاہئے تھی، لیکن اس کی خلاف ورزی کی۔
ان لوگوں کا یہ طریقہ اصل سے مذموم نہ تھا، حضرت عبداللہ بن مسعود کی حدیث اس پر شاہد ہے ابن کثیر نے بروایت ابن ابی حاتم و ابن جریر ایک طویل حدیث نقل کی ہے جس میں ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ بنی اسرائیل بہتر فرقوں میں تقسیم ہوگئے تھے، جن میں سے صرف تین فرقوں کو عذاب سے نجات ملی، جنہوں نے حضرت عیسیٰ ؑ کے بعد ظالم و جابر بادشاہوں اور دولت و قوت والے فاسق و فاجر لوگوں کو ان کے فسق و فجور سے روکا، ان کے مقابلہ میں حق کا کلمہ بلند کیا اور دین عیسیٰ ؑ کی طرف دعوت دی، ان میں سے پہلے فرقہ نے قوت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا، مگر ان کے مقابلہ میں مغلوب ہو کر قتل کردیئے گئے، تو پھر ان کی جگہ ایک دوسری جماعت کھڑی ہوئی، جن کو مقابلہ کی اتنی بھی قوت و طاقت نہیں تھی، مگر کلمہ حق پہنچانے کے لئے اپنی جانوں کی پروا کئے بغیر ان کو حق کی طرف بلایا، ان سب کو بھی قتل کردیا گیا، بعض کو آروں سے چیرا گیا، بعض کو زندہ آگ میں جلایا گیا، مگر انہوں نے اللہ کی رضا کے لئے ان سب مصائب پر صبر کیا، یہ بھی نجات پا گئے، پھر ایک تیسری جماعت ان کی جگہ کھڑی ہوئی، جن میں نہ مقابلہ کی قوت تھی نہ ان کے ساتھ رہ کر خود اپنے دین پر عمل کرنے کی صورت بنتی تھی، اس لئے ان لوگوں نے جنگلوں اور پہاڑوں کا راستہ لیا اور راہب بن گئے، یہی وہ لوگ ہیں جن کا اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ذکر کیا ہے، وَرَهْبَانِيَّةَۨ ابْتَدَعُوْهَا مَا كَتَبْنٰهَا عَلَيْهِمْ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بنی اسرائیل میں سے اصل رہبانیت اختیار کرنے والے جنہوں نے رہبانیت کے لوازم کی رعایت کی اور مصائب پر صبر کیا وہ بھی نجات یافتہ لوگوں میں سے ہیں
آیت مذکورہ کی اس تفسیر کا حاصل یہ ہوا کہ جس طرح کی رہبانیت ابتداً اختیار کرنے والوں نے اختیار کی تھی وہ اپنی ذات سے مذموم اور بری چیز نہ تھی، البتہ وہ کوئی حکم شرعی بھی نہیں تھا، ان لوگوں نے اپنی مرضی و خوشی سے اس کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا، برائی اور مذمت کا پہلو یہاں سے شروع ہوا کہ اس التزام کے بعد بعض لوگوں نے اس کو نبھایا نہیں اور چونکہ تعداد ایسے ہی لوگوں کی زیادہ ہوگئی تھی، اس لئے للاکثر حکم الکل، یعنی اکثریت کے عمل کو کل کی طرف منسوب کردینا عرف عام ہے، اس قاعدہ کے موافق قرآن نے عام بنی اسرائیل کی طرف یہ منسوب کیا کہ انہوں نے جس رہبانیت کو اپنے اوپر لازم کرلیا تھا اس کو نبھایا نہیں اور اس کی شرائط کی رعایت نہیں کی، اسی کو فرمایا (فَمَا رَعَوْهَا حَقَّ رِعَايَــتِهَا)
اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ اس رہبانیت کے متعلق جو قرآن نے فرمایا ابتدعوہا یعنی اس کو انہوں نے ایجاد کرلیا، اس لفظ ابتداع جو بدعت سے مشتق ہے وہ اس جگہ اپنے لغوی معنی یعنی اختراع و ایجاد کے لئے بولا گیا ہے، شریعت کی اصطلاحی بدعت مراد نہیں ہے جس کے بارے میں حدیث میں ارشاد ہے کل بدعة ضلالة ”یعنی ہر بدعت گمراہی ہے“۔
قرآن کریم کے نسق و نظم میں غور کریں تو یہ بات بالکل واضح ہوجاتی ہے سب سے پہلے تو اس جملے پر نظر ڈالے (آیت) وَجَعَلْنَا فِيْ قُلُوْبِ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْهُ رَاْفَةً وَّرَحْمَةً ۭ وَرَهْبَانِيَّةَۨ، جس میں حق تعالیٰ نے اپنی نعمت کے اظہار کے سلسلے میں فرمایا کہ ہم نے ان کے دلوں میں را فت، رحمت، رہبانیت پیدا کردی، نسق کلام بتلاتا ہے کہ جس طرح را فت و رحمت مذموم نہیں اسی طرح ان کی اختیار کردہ رہبانیت بھی اپنی ذات سے کوئی مذموم چیز نہ تھی ورنہ مقام امتنان میں را فت و رحمت کے ساتھ رہبانیت کا ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی، اسی لئے جن حضرات نے مطلقاً رہبانیت کو مذموم و ممنوع قرار دیا ان کو اسی جگہ رہبانیت کے عطف میں غیر ضروری تاویل کرنا پڑی کہ اس کو را فت و رحمت مذموم نہیں اسی طرح ان کی اختیار کردہ رہبانیت بھی اپنی ذات سے کوئی مذموم چیز نہ تھی ورنہ مقام امتنان میں را فت و رحمت کے ساتھ رہبانیت کا ذکر کرنے کی کوئی وجہ نہیں تھی اسی لئے جن حضرات نے مطلقاً رہبانیت کو مذموم و ممنوع قرار دیا ان کو اس جگہ رہبانیت کے عطف میں غیر ضروری تاویل کرنا پڑی کہ اس کو را فت و رحمت پر عطف نہیں مانا بلکہ ایک مستقل جملہ یہاں محذوف قرار دیا یعنی ابتداعوا (کما فعلہ القرطبی) لیکن مذکورہ تفسیر پر اس تاویل کی کوئی ضرورت نہیں رہتی، آگے بھی قرآن کریم نے ان کے اس ابتداع پر کوئی نکیر اور رد نہیں فرمایا بلکہ نکیر اس پر کی گئی کہ انہوں نے اس اختیار کردہ رہبانیت کو نبھاہا نہیں، اس کے حقوق و شرائط کی رعایت نہیں کی، یہ بھی جب ہی ہوسکتا ہے کہ ابتداع کو لغوی معنی میں لیا جائے، شرعی اور اصطلاحی معنی ہوتے تو قرآن خود اس پر بھی نکیر کرتا، کیونکہ بدعت اصطلاحی خود ایک گمراہی ہے۔
اور حضرت عبداللہ بن مسعود کی مذکورہ حدیث سے اور بھی یہ بات واضح ہوگئی کہ ترہب اختیار کرنے والی جماعت کو نجات یافتہ جماعتوں میں شمار فرمایا، اگر یہ بدعت اصطلاحی کے مجرم ہوتے تو نجات یافتہ میں شمار نہ ہوتے بلکہ گمراہوں میں شمار کئے جاتے۔
کیا رہبانیت مطلقاً مذموم و ناجائز ہے، یا اس میں کچھ تفصیل ہے ؟
صحیح بات یہ ہے کہ لفظ رہبانیت کا عام اطلاق ترک لذات و ترک مباحات کے لئے ہوتا ہے، اس کے چند درجے ہیں، ایک یہ کہ کسی مباح و حلال چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے، یہ تو دین کی تحریف و تغیر ہے، اس معنی کے اعتبار سے رہبانیت قطعاً حرام ہے اور آیت قرآن (یایھا الذین امنوا لاتحرموا طیبت ما احل اللہ لکم) اور اس کی امثال میں اسی کی ممانعت و حرمت کا بیان ہے، اس آیت کا عنوان لاتحرموا خود یہ بتلا رہا ہے کہ اس کی ممانعت اس لئے ہے کہ یہ اللہ کی حلال کی ہوئی چیز کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار دے رہا ہے جو احکام الٰہیہ میں تبدیل و تحریف کے مترادف ہے۔
دوسرا درجہ یہ ہے کہ مباح کے کرنے کو اعتقاداً یا عملاً حرام قرار نہیں دیتا، مگر کسی دنیوی یا دینی ضرورت کی وجہ سے اس کو چھوڑنے کی پابندی کرتا ہے، دنیوی ضرورت جیسے کسی بیماری کے خطرہ سے کسی مباح چیز سے پرہیز کرے اور دینی ضرورت یہ کہ یہ محسوس کرے کہ میں نے اس مباح کو اختیار کیا تو انجام کار میں کسی گناہ میں مبتلا ہوجاؤں گا، جیسے جھوٹ، غیبت وغیرہ سے بچنے کے لئے کوئی آدمی لوگوں سے اختلاط ہی چھوڑ دے، یا کسی نفسانی رذیلہ کے علاج کے لئے چند روز بعض مباحات کو ترک کر دے اور اس ترک کی پابندی بطور علاج و دوا کے اس وقت تک کرے جب تک یہ رذیلہ دور نہ ہوجائے، جیسے صوفیائے کرام مبتدی کو کم کھانے، کم سونے، کم اختلاط کی تاکید کرتے ہیں کہ یہ ایک مجاہدہ ہوتا ہے نفس کو اعتدال پر لانے کا جب نفس پر قابو ہوجاتا ہے کہ ناجائز تک پہنچنے کا خطرہ نہ رہے تو یہ پرہیز چھوڑ دیا جاتا ہے، یہ درحقیقت رہبانیت نہیں، تقویٰ ہے جو مطلوب فی الدین اور اسلاف کرام صحابہ وتابعین اور ائمہ دین سے ثابت ہے۔
تیسرا درجہ یہ ہے کہ کسی مباح کو حرام تو قرار نہیں دیتا مگر اس کا استعمال جس طرح سنت سے ثابت ہے اس طرح کے استعمال کو بھی چھوڑنا ثواب اور افضل جان کر اس سے پرہیز کرتا ہے، یہ ایک قسم کا غلو ہے، جس سے احادیث کثیرہ میں رسول اللہ ﷺ نے منع فرمایا ہے اور جس حدیث میں لا رھبانیة فی الا سلام آیا ہے ”یعنی اسلام میں رہبانیت نہیں“ اس سے مراد ایسا ہی ترک مباحات ہے کہ ان کے ترک کو افضل وثواب سمجھے، بنی اسرائیل میں جو رہبانیت اول شروع ہوئی وہ اگر حفاظت دین کی ضرورت سے تھی تو دوسری قسم یعنی تقویٰ میں داخل ہے لیکن اہل کتاب میں غلو فی الدین کی آفت بہت تھی، وہ اس غلو میں پہلے درجہ سے تحریم حلال تک پہنچے تو حرام کے مرتکب ہوئے اور تیسرے درجہ تک رہے تو بھی ایک مذموم فعل کے مجرم بنے، واللہ سبحانہ و تعالیٰ اعلم
Top