Tafseer-e-Majidi - Al-Qasas : 68
قَالُوا اتَّخَذَ اللّٰهُ وَلَدًا سُبْحٰنَهٗ١ؕ هُوَ الْغَنِیُّ١ؕ لَهٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ١ؕ اِنْ عِنْدَكُمْ مِّنْ سُلْطٰنٍۭ بِهٰذَا١ؕ اَتَقُوْلُوْنَ عَلَى اللّٰهِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ
قَالُوا : وہ کہتے ہیں اتَّخَذَ : بنا لیا اللّٰهُ : اللہ وَلَدًا : بیٹا سُبْحٰنَهٗ : وہ پاک ہے ھُوَ : وہ الْغَنِيُّ : بےنیاز لَهٗ : اس کے لیے مَا : جو فِي السَّمٰوٰتِ : آسمانوں میں وَمَا : اور جو فِي الْاَرْضِ : زمین میں اِنْ : نہیں عِنْدَكُمْ : تمہارے پاس مِّنْ : کوئی سُلْطٰنٍ : دلیل بِهٰذَا : اس کے لیے اَتَقُوْلُوْنَ : کیا تم کہتے ہو عَلَي اللّٰهِ : اللہ پر مَا : جو لَا تَعْلَمُوْنَ : تم نہیں جانتے
کہتے ہیں کہ اللہ نے ایک بیٹا بنا رکھا ہے سبحان اللہ ! بےنیاز ہے وہ اسی کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں میں اور جو کچھ بھی ہے زمین میں،102۔ تمہارے پاس کوئی بھی دلیل اس (دعوے) کی نہیں تو کیا اللہ پر ایسی بات گھڑتے ہو جس کا (خود) علم نہیں رکھتے،103۔
102۔ ساری موجودات بڑی ہو یا چھوٹی بشری ہو یا غیر بشری اللہ کے ساتھ نسبت صرف مخلوقیت اور مملوکیت کی رکھتی ہے نہ کہ معاذاللہ کسی طرح کی قرابت اور عزیز داری کی۔۔ دیوتاؤں کے ساتھ فوق البشر انسانوں کی قرابت عزیز داری مذاہب جاہلی کا بہت قدیم اور مشترک عقیدہ ہے قرآن بار بار مختلف طریقوں سے اس عقیدہ پر ضرب لگاتا رہتا ہے۔ (آیت) ” قالوا اتخذ اللہ ولدا “۔ یہ کہنے والے اور عقیدہ رکھنے والے بت پرست مشرکین ہی تھے اور مسیح پرست مسیحیوں کے بعض فرقے بھی۔ اتخاذ ولد پر مفصل حاشیہ سورة بقرہ پارہ اول آیت نمبر 116 میں اسی آیت پر گزر چکا ہے ضرور ملاحظہ فرمالیاجائے۔ (آیت) ” سبحنہ “۔ حق تعالیٰ پاک ومنزہ ہے مخلوقات کے ساتھ کسی قسم کی نسبت قرابت رکھنے سے ! للکارا اور پھٹکارا ہے اہل باطل کو کہ کیسے جہل وسفاہت میں مبتلاہو ایک طرف تو خدا کو خدا کہے جاتے ہو اس کی قدرت کا کلمہ بھی پڑھتے ہو اور پھر اسے اس کا محتاج سمجھتے ہو کہ وہ دنیا کے لاولد لوگوں اور لاولدی سے نقصان محسوس کرنے و انسانوں کی طرح کسی کو گود لے کر اپنی لاولدی کی تلافی کرے ! (آیت) ” ھوالغنی “۔ خدائے اسلام تو ہر ممکن احتیاج سے ماوراء ہے اسے اتخاذولد کی (بیٹا بنانے کی) ضرورت ہی بھلا کیا پیش آسکتی ہے ! (آیت) ” لہ مافی السموت وما فی الارض “۔ اس کا تو سب ہی کچھ ہے کچھ ہے اعلی وادنی جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں ہے وہ سب کا مالک سب اس کے مملوک جس سے جو چاہے کام لے ملک کا تعلق تو فرزندی وتبنیت کے تعلق سے کہیں زیادہ قوی موجود ہے آخر ممکن ہی اس کے لئے کون سا ارمان ہے جس کے پورا کرنے کے لے اسے کسی کو گود لینے یا متنبی بنانے کی ضرورت پیش آئے۔ 103۔ (کسی دلیل سے بھی) قرآن مجید نے جہاں ایک طرف اثبات توحید پر بیسیوں دلائل قائم کئے ہیں وہاں اہل شرک سے بار بار مطالبہ کیا ہے کہ تم اپنی باطل پرستی پر آخر دلیل ہی کونسی رکھتے ہو ؟ تم تو سراسر ایک دعوی بےدلیل کی پیروی میں مبتلا ہو۔ (آیت) ” ان عندکم “۔ میں ان نافیہ ہے۔ (آیت) ” من سلطن “۔ یعنی کوئی بھی دلیل۔ بھذا یعنی ایسے لغو و باطل دعوی کی ، (آیت) ” اتقولون علی اللہ “۔ قال کا صلہ جب علی کے ساتھ آتا ہے تو اس کے معنی گڑھ لینے، جھوٹ جوڑ لینے کے ہوجاتے ہیں۔ قال علیہ اے افتری (تاج)
Top