Tafseer-e-Majidi - Hud : 117
وَ مَا كَانَ رَبُّكَ لِیُهْلِكَ الْقُرٰى بِظُلْمٍ وَّ اَهْلُهَا مُصْلِحُوْنَ
وَمَا كَانَ : اور نہیں ہے رَبُّكَ : تیرا رب لِيُهْلِكَ : کہ ہلاک کردے الْقُرٰي : بستیاں بِظُلْمٍ : ظلم سے وَّاَهْلُهَا : جبکہ وہاں کے لوگ مُصْلِحُوْنَ : نیکو کار
اور آپ کا پروردگار ہرگز ایسا نہیں کہ بستیوں کو ہلاک کردے (ان کی) زیادتیوں کے باعث درآنحالیکہ ان کے رہنے والے اصلاح میں لگے ہوں،166۔
166۔ (بلکہ عذاب ہلاکت تو ان پر اس وقت واقع ہوتا ہے۔ جب نہ وہ خود فساد فی الارض سے رکتے ہیں نہ دوسروں کو روکتے ہیں) (آیت) ” مصلحون “۔ اصلاح سے یہاں مراد اپنی اور دوسروں دونوں کی اصلاح ہے۔ (آیت) ” بظلم “۔ ظلم سے یہاں مراد کفر لیا گیا ہے اور ظلم کا صیغہ نکرہ ظلم کی عظمت ظاہر کرنے کو ہے۔ والتنکیر للتفخیم (روح) لیکن بعض اکابر مفسرین نے آیت کے بالکل دوسرے ہی معنی قرار دیے ہیں وہ ظلم کر شرک کا مرادف قرار دے کر کہتے ہیں کہ حق تعالیٰ کسی قوم کو محض اس کے شرک کی بنا پر ہلاک نہیں کردیتا اس حال میں کہ وہ قوم آپس کے معاملات (بندوں کے معاملات) ٹھیک رکھے ہوئے ہو۔ المراد من الظلم ھھنا الشرک والمعنی انہ تعالیٰ لایھلک اھل القری بمجرد کو نھم مشرکین اذا کانوا مصلحین فی المعاملات فی ما بینھم والحاصل ان عذاب الاستیصال لا ینزل لاجل کون القوم معتقدین للشرک والکفر بل انما ینزل ذلک العذاب اذا اساء وا فی المعاملات وسعوا فی الایذاء والظلم (کبیر) ای لا یھلک القری بسبب شرک اھلھا وھم مصلحون فی المعاملات فیما بینھم لایضمون الی شرکھم فسادا اخر (مدارک) اور امام رازی (رح) نے فرمایا ہے کہ مذہب اہل سنت کے موافق آیت کی یہی تفسیر ہے۔ وھذا تاویل اھل السنۃ لھذہ الایۃ (کبیر) فقہاء نے یہیں سے یہ بھی نکالا ہے کہ تزاحم حقوق کے وقت حقوق العباد مقدم ہیں۔ ومن ذلک قدم الفقھاء عند تزاحم الحقوق حقوق العباد (بیضاوی) (آیت) ” لیھلک “۔ میں ل تاکید نفی کے لئے ہے۔ اللام لتاکید النفی (کشاف) واللام فیہ مثل ذلک زائدۃ لتاکید النفی عند الکوفیۃ (روح)
Top