Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 112
وَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا قَرْیَةً كَانَتْ اٰمِنَةً مُّطْمَئِنَّةً یَّاْتِیْهَا رِزْقُهَا رَغَدًا مِّنْ كُلِّ مَكَانٍ فَكَفَرَتْ بِاَنْعُمِ اللّٰهِ فَاَذَاقَهَا اللّٰهُ لِبَاسَ الْجُوْعِ وَ الْخَوْفِ بِمَا كَانُوْا یَصْنَعُوْنَ
وَضَرَبَ اللّٰهُ : اور بیان کی اللہ نے مَثَلًا : ایک مثال قَرْيَةً : ایک بستی كَانَتْ : وہ تھی اٰمِنَةً : بےخوف مُّطْمَئِنَّةً : مطمئن يَّاْتِيْهَا : اس کے پاس آتا تھا رِزْقُهَا : اس کا رزق رَغَدًا : بافراغت مِّنْ : سے كُلِّ مَكَانٍ : ہر جگہ فَكَفَرَتْ : پھر اس نے ناشکری کی بِاَنْعُمِ : نعمتوں سے اللّٰهِ : اللہ فَاَذَاقَهَا : تو چکھایا اس کو اللّٰهُ : اللہ لِبَاسَ : لباس الْجُوْعِ : بھوک وَالْخَوْفِ : اور خوف بِمَا : اس کے بدلے جو كَانُوْا يَصْنَعُوْنَ : وہ کرتے تھے
اور اللہ ایک بستی والوں کی مثال بیان کرتا ہے کہ وہ امن و اطمینان میں رہتے تھے ان کے کھانے کا سامان بہ فراغت ان کے پاس ہر طرف سے آتا رہتا لیکن انہوں نے اللہ کی نعمتوں کی ناشکری کی اس پر اللہ نے انہیں ایک محیط قحط اور خوف کا مزہ چکھایا بہ سبب ان کے کرتوتوں کے،174۔
174۔ مثال سے مقصود یہ ظاہر کرنا ہے کہ کفر و انکار کے نتائج اس دنیا میں بھی کیسے سخت اور ہولناک ہوسکتے ہیں۔ (آیت) ” ضرب اللہ مثلا “۔ مثال سے مقصود نتائج کفر پر متنبہ کرنا ہے۔ (آیت) ” امنۃ۔۔ بانعم اللہ “۔ آیت سے ظاہر ہوگیا کہ دنیا میں امن و فراغت سے رہنا سہنا اور کافی سامان معیشت بہم پہنچتے رہنا حق تعالیٰ کی بڑی نعمتوں میں سے ہے، تحقیر کے نہیں شکریہ کے قابل۔ (آیت) ” فاذاقھا۔۔ یصنعون “۔ آیت سے ظاہر ہورہا ہے کہ دنیوی نعمتوں کی ناشکری بھی عذاب کا مستحق بنادیتی ہے۔ (آیت) ” فکفرت بانعم اللہ “۔ یہ ناشکری انہوں نے عقاید کفر وشرک کو اختیار کر کرکے کی۔
Top