Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 116
وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُكُمُ الْكَذِبَ هٰذَا حَلٰلٌ وَّ هٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ١ؕ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَى اللّٰهِ الْكَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَؕ
وَ : اور لَا تَقُوْلُوْا : تم نہ کہو لِمَا : وہ جو تَصِفُ : بیان کرتی ہیں اَلْسِنَتُكُمُ : تمہاری زبانیں الْكَذِبَ : جھوٹ ھٰذَا : یہ حَلٰلٌ : حلال وَّھٰذَا : اور یہ حَرَامٌ : حرام لِّتَفْتَرُوْا : کہ بہتان باندھو عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ اِنَّ : بیشک الَّذِيْنَ : وہ لوگ جو يَفْتَرُوْنَ : بہتان باندھتے ہیں عَلَي : پر اللّٰهِ : اللہ الْكَذِبَ : جھوٹ لَا يُفْلِحُوْنَ : فلاح نہ پائیں گے
اور اپنی زبانوں کے جھوٹ بنالینے سے یہ مت کہہ دیا کرو کہ فلاں چیز حلال ہے اور فلاں حرام جس کا حاصل یہ ہوگا کہ اللہ پر جھوٹی تہمت لگا دو گے،178۔ بیشک جو لوگ اللہ پر جھوٹی تہمتیں لگاتے ہیں وہ فلاح نہیں پاتے،
178۔ یعنی جب خدائی شریعت میں وہ مضمون ہے ہی نہیں جو تم بتا رہے ہو، تو تمہارا اس کو خدائی شریعت کی جانب منسوب کرنا، اسے خدا پر گڑھنا ہی تو ہوا۔ (آیت) ” لما تصف السنتکم “۔ یعنی اس پر کوئی دلیل صحیح تو قائم ہے نہیں۔ محض تمہارے زبانی دعوے ہی ہیں۔ (آیت) ” لتفترو “۔ میں ل عاقبت کا ہے، یعنی تمہارے اس قول کا حاصل یہی افتراء علی اللہ ہے۔ واللام من التعلیل الذی لایتضمن معنی الغرض (کشاف) واظن ان ھذا اللام لیس لام الغرض بل کان لام العاقبۃ (کبیر) اللام لام العاقبۃ والصیرورۃ (روح) (آیت) ” ولا تقولوا۔۔۔ حرام “۔ ترجمہ متن میں جو ترکیب اختیار کی گئی ہے، وہ کسائی لغوی اور زجاج نحوی کے قول کے مطابق ہے، اور بہت سے مفسرین کی اختیار کردہ۔ اے لاتقولوا ھذا حلال وھذا حرام لاجل وصف السنتکم الکذب والی ھذاذھب الکسائی والزجاج (روح)
Top