Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 120
اِنَّ اِبْرٰهِیْمَ كَانَ اُمَّةً قَانِتًا لِّلّٰهِ حَنِیْفًا١ؕ وَ لَمْ یَكُ مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۙ
اِنَّ : بیشک اِبْرٰهِيْمَ : ابراہیم كَانَ : تھے اُمَّةً : ایک جماعت (امام) قَانِتًا : فرمانبردار لِّلّٰهِ : اللہ کے حَنِيْفًا : یک رخ وَ : اور لَمْ يَكُ : نہ تھے مِنَ : سے الْمُشْرِكِيْنَ : مشرک (جمع)
بیشک ابراہیم (علیہ السلام) بڑے مقتدا اللہ کے فرمانبردار (اور اس کی طرف) ایک رخ رہنے والے تھے اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھے،182۔
182۔ (تو تم کس منہ سے ان کی پیروی اور ان کی نسل میں ہونے کا دعوی کرو ہے ہو، اے مشرکین عرب ! ) تم تو ہر معاملہ میں ان کی بالکل ضد ہو، وہ قانت وفرمانبردار تھے، تم نافرمان، وہ مومن حنیف، اللہ کی طرف یکسوئی سے لگے ہوئے اور ایک رخ تھے، اور تم ادھر سے منہ موڑے ہوئے، دنیا طلبی پر گرے ہوئے، وہ موحد تھے، تم مشرک، تمہارے ان کے درمیان رشتہ اشتراک ہی کیا ؟ (آیت) ” ابرہیم “۔ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پر حاشیہ سورة بقرہ، پ 1، رکوع 15 میں گزر چکا، (آیت) ” امۃ “۔ یعنی اللہ کی عبادت وفرمانبرداری اور طاعات وحسنات میں پوری ایک جماعت کے قائم مقام اور برابر۔ اے قائما مقام جماعۃ فی عبادۃ اللہ (راغب) اے کان وحدہ امۃ من الامم لکمالہ فی جمیع صفات الخیر (کشاف) عن ابن عباس ؓ اے کان عندہ من الخیر ماکان عندامۃ وھی الجماعۃ الکثیر ۃ (روح) دوسرے معنی امام یا مقتداء کے ہیں، جو امور خیر میں بہ طور نمونہ کے کام دے۔ ابوعبیدہ لغوی نے یہی معنی لئے ہیں، اور مشہور صحابی عبداللہ بن مسعود ؓ اور فراء لغوی سے معلم خیر کے معنی منقول ہیں۔ الامۃ الامام وبہ فسرابوعبیدہ (تاج) وقال الفراء کان امۃ اے معلما للخیر وبہ فسر ابن مسعود ایضا (تاج) امۃ بمعنی ماموم اے یؤمہ الناس لیاخذوا منہ الخیر (کشاف) فھو الامام الذی یقتدی بہ (ابن کثیر) (آیت) ” حنیفا “۔ ہر مذہب باطل سے ہٹ کر دین حق کی طرف جھکے ہوئے اور اس پر ثابت وقائم۔ مائلا عن کل دین باطل الی الدین الحق غیر زائل عنہ (روح)
Top