Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 121
شَاكِرًا لِّاَنْعُمِهٖ١ؕ اِجْتَبٰىهُ وَ هَدٰىهُ اِلٰى صِرَاطٍ مُّسْتَقِیْمٍ
شَاكِرًا : شکر گزار لِّاَنْعُمِهٖ : اس کی نعمتوں کے لیے اِجْتَبٰىهُ : اس نے اسے چن لیا وَ هَدٰىهُ : اور اس کی رہنمائی کی اِلٰى : طرف صِرَاطٍ مُّسْتَقِيْمٍ : سیدھی راہ
) اللہ کی) نعمتوں کے بڑے شکر گزار (اللہ نے) ان کو چن لیا تھا اور انہیں سیدھی راہ پر ڈال دیا تھا،183۔
183۔ (چنانچہ انہی کے نقش قدم پر چلنے اور انہی کی ملت حنیف اختیار کرنے میں آج بھی فلاح ونجات ہے) (آیت) ” اجتبہ “۔ حضرت ابراہیم خلیل (علیہ السلام) دنیا کے تین مشہور وزبردست مذہبوں کے آج بھی مسلم مقتدا و پیشوا ہیں۔ اسلام کے، یہودیت کے، نصرانیت کے۔ (آیت) ” شاکرالانعمہ “۔ کہاں وہ اتنے شکر گزار بندہ تھے، اور کہاں تم ایسے ناشکرے نکلے۔ انعم۔ پر سوال یہ ہوا ہے کہ یہ تو جمع قلت ہے، پھر حضرت ابراہیم (علیہ السلام) پرتو بڑی کثرت سے نعمتیں نازل ہوئی تھیں، پھر ان کے لئے یہ جمع قلت کیسے آئی ؟ امام رازی (رح) نے سوال کے جواب میں کہا ہے کہ اس جمع قلت کا تعلق تو (شاکرا) آپ ﷺ کی شکر گزاری سے ہے، تو جب آپ قلیل نعمتوں تک کے شکرگزار تھے، تو پھر بڑی اور کثیر نعمتوں کی شکرگزار تھے، تو پھر بڑی اور کثیر نعمتوں کی شکر گزاری کا پوچھنا ہی کیا :۔ المراد انہ کا شاکرا لجمیع نعم اللہ ان کانت قلیلۃ فیکف الکثیر ۃ (کبیر)
Top