Tafseer-e-Majidi - An-Nahl : 98
فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ
فَاِذَا : پس جب قَرَاْتَ : تم پڑھو الْقُرْاٰنَ : قرآن فَاسْتَعِذْ : تو پناہ لو بِاللّٰهِ : اللہ کی مِنَ : سے الشَّيْطٰنِ : شیطان الرَّجِيْمِ : مردود
تو جب آپ قرآن پڑھنے لگیں تو شیطان مردود (کے شر) سے اللہ کی پناہ مانگ لیا کیجیے،158۔
158۔ (دل سے تو ضرور، اور بہتر یہ ہے کہ زبان سے بھی) (آیت) ” فاستعذ باللہ “۔ استعاذہ کی حقیقت ہے دل سے حق تعالیٰ پر نظر رکھنا، اور اس کا یہ درجہ شریعت میں واجب ہے، اور زبان سے بھی کلمات استعاذہ کا دہرانا مسنون ہے۔ (آیت) ” فاذا قرأت القران “۔ فقہاء مفسرین نے لکھا ہے کہ قرأت قرآن کے وقت شیطان کا دخل و تصرف یوں ہی بہت کم ہوتا ہے۔ (بلکہ بعض آیتوں اور سورتوں سے تو شیطان کے فرار کی تاثیر منقول ہے) تو جب ایسے خاص الخاص عمل میں استعاذہ ضروری ہوا، تو دوسرے اعمال صالحہ میں اس کی ضرورت جس درجہ کی ہوگی ظاہر ہی ہے۔ (آیت) ” فاذا قرأت القران “۔ الخ مراد یہ ہے کہ جب قرآن پڑھنے کا ارادہ ہو تو پہلے استعاذہ کرلے، یہ مراد نہیں کہ جب قرآن پڑھ چکے تو اس کے بعد استعاذہ کرے۔ معناہ اذا قرأت فقدم الاستعاذۃ قبل القران وحقیقۃ معناہ اذا اردت القران فاستعذ (جصاص) اے اذا اردت قراء ۃ القران فعبر عن ارادۃ الفعل بلفظ الفعل لانھا سبب لہ (مدارک) اور محاورۂ قرآنی میں یہ اسلوب بیان عام ہے۔ مثلا ان آیتوں میں :۔ (آیت) ” واذا قلتم فاعدلوا، واذا سالتموھن متاعا فاسئلوھن من وراء حجاب۔ اذا ناجیتم الرسول فقدموا بین یدی نجواکم صدقۃ۔ وغیرھا۔ ان سب موقعوں پر ارادۂ فعل کو فعل کے قائم مقام کی حیثیت دی گئی ہے۔
Top