Tafseer-e-Majidi - Al-Ahzaab : 72
یٰۤاُخْتَ هٰرُوْنَ مَا كَانَ اَبُوْكِ امْرَاَ سَوْءٍ وَّ مَا كَانَتْ اُمُّكِ بَغِیًّاۖۚ
يٰٓاُخْتَ هٰرُوْنَ : اے ہارون کی بہن مَا : نہ كَانَ : تھا اَبُوْكِ : تیرا باپ امْرَاَ : آدمی سَوْءٍ : برا وَّ : اور مَا كَانَتْ : نہ تھی اُمُّكِ : تیری ماں بَغِيًّا : بدکار
اے ہارون کی بہن ! نہ تمہارے والد ہی برے آدمی تھے اور نہ تمہاری ماں ہی بدکار تھیں،42۔
42۔ (تو یہ بھی تو نہیں کہا جاسکتا کہ والدین کی برائی کا اثر تم میں آگیا۔ ایسے نیک اور خوش چلن، شریف خاندان میں ہو کر اور یہ حرکت ! کتنی شرم کی بات ہے) غیرت دلانے کا اس سے زیادہ مؤثر زور دار طریق اور ہو کیا سکتا تھا۔ (آیت) ” یاخت ھرون “۔ اخت صیغہ مؤنث اخ کا ہے۔ اور جس طرح اخ کا مفہوم نہایت وسیع ہے اور وطنی، دینی، صناعتی ہر قسم کے اشتراک وتشابہ پر حاوی، اسی طرح اخت کا اطلاق بھی نسب پر محدود نہیں، بلکہ ہر قسم کے اشتراک کے لئے عام ہے۔ یہاں بھی مفہوم اسی مثلیت کا ہے۔ گویا وہ لوگ کہہ یہ رہے ہیں کہ اے ہارون جیسی خاتون، اے تقوی و پاکیزگی میں ہارون کی ہم سطح خاتون، نسبت الیہ بمعنی التشبیہ لابمعنی النسبۃ (کبیر) والمراد بالاخت انھا واحدۃ منھم کما یقال العرب اخا العرب وھو المروی عن السدی (روح) شبھوھا بہ علی معنی (آیت) ’ ’ اناظننا انک “ مثلہ فی الصلاح ولیس المراد منہ الاخوۃ فی النسب (معالم) خود قرآن میں بھی اخت مشابہ کے معنی میں آیا ہے۔ وما نریھم میں ایۃ الاھی اکبر من اختھا (زخرف۔ ع 4) (آیت) ” ھرون “۔ یہ ہارون کون تھے ؟ اغلب تو یہی ہے کہ وہی ہارون (علیہ السلام) نبی مراد ہوں۔ جو اپنے تقوی و پاکیزگی کے لئے اسرائیلیوں میں ضرب المثل تھے۔ یہ بھی ممکن ہے کہ یہ کوئی اور ہارون مریم (علیہ السلام) کے معاصر ہوں، جن کا تقوی اس عہد کے لوگوں میں معروف ومسلم ہو۔ اور یہ اگر کوئی صالح شخص حضرت مریم (علیہ السلام) کے بھائی ہی ہوں تو اس میں بھی کوئی تاریخی استبعاد نہیں۔ جب کہ والدین مریم (علیہ السلام) کی اولاد کی تفصیل کہیں محفوظ نہیں۔
Top